آزادی کا مطلب انتشار کو فروغ دینا نہیں ہونا چاہیے، ترک وزیر خارجہ
29 ستمبر 2012اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شریک مسلم ممالک کے نمائندوں نے مغربی دنیا کو اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسلم رہنماؤں کا موقف ہے کہ مغرب ممالک آزادی اظہار کے نام پر ثقافتوں کے مابین پائی جانے والی حساسیت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس رویے کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے مابین خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے کہا کہ آزادی اظہار کے بہانے اسلام مخالف رویےکو بند ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق قابل افسوس بات یہ ہے کہ اسلام فوبیا سامی دشمنی کی طرح کے امتیازی سلوک کی ایک قسم بن چکا ہے اور اسے اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اوگلو نے مزید کہا کہ آزادی کا مطلب انتشار کو فروغ دینا نہیں ہونا چاہیے۔
مصر کے نو متخب صدر محمد مرسی نے بھی جنرل اسمبلی کے سامنے کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ مرسی کے بقول وہ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حق کو نفرت کے فروغ کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مرسی نے مزید کہا ’’دوسرے ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ان کی عزت کی جائےاور ہم بھی ان سے یہی چاہتے ہیں۔ ہماری ثقافت اور ہماری مذہبی اقدار کا خیال رکھا جائے اور وہ ہم پر ایسی چیزیں مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں، جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ میں موجود زیادہ تر مغربی ممالک نے آزادی اظہار کے حق کا دفاع کیا اور توہین رسالت کے حوالے سے مسلم رہنماؤں کے کسی بین الاقوامی قانون کے مطالبے کو رد کیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ کسی نفرت انگیز تقریر کا مقابلہ کرنے کا بہترین ہتھیار جبر نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ایسی رواداری کا مظاہرہ کرنا ہے، جس سے تعصب اور توہین رسالت کی نفی ہو۔
اقوام متحدہ کی 47 رکنی ہیومن رائٹس کونسل نے توہین مذہب کی ممانعت کے لیے ایک ایسی قرارداد منظور کی ہے، جس کی پابندی لازمی نہیں ہے۔ کچھ یورپی ممالک، امریکا اور متعدد لاطینی امریکی ریاستوں کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔
ساتھ ہی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی صورتحال ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سفارت خانوں یا اس سے متعلقہ عمارتوں کو نذر آتش کرنا تہذیبوں کے مابین تصادم کا ایک ثبوت ہے، تو یہ غلط ہے:’’ہمیں اس طرح کی کسی بھی دلیل کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تصادم تہذیبوں کے مابین نہیں بلکہ تہذیبوں کے اندر موجود ہے‘‘۔
ai / aa ( Reuters )