آرمینیا کا ہنگری سے ڈپلومیٹک تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ
1 ستمبر 2012آرمینیا کے ایک فوجی افسر کو سن 2004 میں آذری سپاہی رامیل صفاروف (Ramil Safarov) نے قتل کر دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں ہنگری کی عدالت نے صفاروف کو عمر قید کی سزا کا حکم سنایا تھا۔ آذری حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد کہ صفاروف کی سزا کی بقیہ مدت آذربائجان میں پوری کی جائے گی، بوڈاپیسٹ حکومت نے رامیل صفاروف کو واپس آذربائیجان روانہ کر دیا ہے۔ ہنگری کی حکومت کا اس مناسبت سے مؤقف ہے کہ یہ صحیح سمت میں قدم اٹھایا گیا ہے۔
آرمینیا نے بوڈاپیسٹ کے اس اقدام پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ آرمینیائی صدر سرژ سارکسیان (Serzh Sarksyan) نے کہا کہ آذری فوجی کو رہا کر کے ہنگری نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ صدر سارکسیان نے رامیل صفاروف کی رہائی کے فوری بعد اپنے ملک کی سکیورٹی کونسل کا فوری اجلاس طلب کر لیا تھا۔ صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ بوڈا پیسٹ اور باکو نے اس معاملے پر یقینی طور پر ایک ڈیل کو مکمل کیا ہے۔ صدر سارکسیان نے مزید کہا کہ انہوں نے ہنگری کے ساتھ اپنے ملک کے تمام تعلقات کو فوری طور پر منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آذربائیجان کے فوجی رامیل صفاروف نے سن 2004 میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی فوجی مشقوں کے دوران آرمینیا کے فوجی افسر گورگین مارکاریان (Gurgen Markaryan) کو ہلاک کر دیا تھا۔ ہنگری کی عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ہنگری کی حکومت نے آذری سپاہی کو سزا پوری کرنے کے لیے آذربائیجان کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ طے ہونے کے بعد کہ رامیل صفاروف اپنی بقیہ سزا آذربائیجان کی قید میں پوری کرے گا تو دوسری جانب وسطی ایشیائی ریاست آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے اپنے فوجی کی سزا کو معاف کر دیا۔ اس معافی کے بعد ہنگری نے رامیل صفاروف کو رہا کر کے اس کے ملک روانہ کر دیا۔ یہی معافی ہی وجہ تنازعہ بنی ہے۔
ہنگری کی وزارت خارجہ کے ترجمان گابور کالیٹا (Gabor Kaleta) کا رامیل صفاروف کی رہائی پر کہنا ہے کہ ان کے ملک نے اس سارے معاملے میں مناسب انداز میں قدم اٹھائے ہیں۔ کالیٹا کا مزید کہنا تھا کہ بوڈاپیسٹ نے بین الاقوامی قانون کی شقوں کی پاسداری کرتے ہوئے معاملے کو آگے بڑھایا تھا۔ ہنگری کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر آرمینیا کے ردعمل کے تناظر میں اس وقت اتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے در میان تعلقات سن 1991 میں آذری باشندوں اور آرمینیائی باشندوں کے درمیان نگورنو کاراباخ میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد سے منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ کشیدہ بھی ہیں۔ رواں برس کے دوران سرحدی جھڑپوں نے اس صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا۔ نگورنو کاراباخ اپنے معاملات خود سے چلا رہا ہے لیکن اس کو آرمینیا کی فوجی اور بھاری معاشی معاونت بھی حاصل ہے۔ سن 1991 ہی میں آرمینیا کی فوجی امداد کے سہارے پر نگورنو کاراباخ کی سکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کے علاوہ ملحقہ سات آذری اضلاع پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ دونوں ملک نگورنوکاراباخ کے معاملے پر مذاکراتی عمل میں کسی نکتے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں اور بات چیت کا عمل گزشتہ سال سے تعطلی کا شکار ہے۔
(ah/at(Reuters