24 برس سے کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا، پاکستانی محکمہ موسمیات
26 اگست 2025پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں حالیہ دو ماہ کے دوران بارشوں میں صرف 12 فیصد اضافہ ہوا، جو خاطر خواہ نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حالیہ فلیش فلڈز کلاؤڈ برسٹ کے بجائے دیگر عوامل کا نتیجہ ہیں۔
بونیر میں تباہی
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں حالیہ فلیش فلڈز نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اسے کلاؤڈ برسٹ قرار دیا لیکن محکمہ موسمیات نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
آخری کلاؤڈ برسٹ کب ہوا؟
موسمیات دان ڈاکٹر سید فیصل سعید نے بتایا کہ پاکستان میں آخری کلاؤڈ برسٹ جولائی 2001 میں راولپنڈی میں ہوا، جب 24 گھنٹوں میں 620 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جس میں ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی۔ انہوں نے کہا، ''ہم صرف شواہد پر مبنی نتائج پیش کرتے ہیں۔ حالیہ بارشوں کو بھاری بارش کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کلاؤڈ برسٹ نہیں ہیں۔‘‘
تباہ کن سیلاب، خدا کا عذاب یا انسانی کوتاہی؟
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ''بھاری بارش‘‘ کی تعریف علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں 35 ملی میٹر بارش بھاری سمجھی جاتی ہے، جبکہ مری میں اتنی مقدار عام ہے۔
کراچی میں اربن فلڈنگ
کراچی کے علاقوں جیسے گلشنِ حدید، کیماڑی، ناظم آباد اور سرجانی ٹاؤن میں 24 گھنٹوں میں 178 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی، جو 'انتہائی بھاری بارش‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تباہی کی وجہ بارش سے زیادہ انتظامی ناکامیاں ہیں، جیسے ناقص نکاسی آب کا نظام۔
کیا یہ انتظامی ناکامیاں ہیں؟
ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہر نصیر میمن نے کہا، ''پاکستان میں تباہی کی وجہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انتظامی ناکامیاں ہیں۔‘‘ انہوں نے ناقص ڈرینیج سسٹم، جنگلات کی کٹائی اور ٹمبر مافیا کی سرگرمیوں کو فلیش فلڈز کی بڑی وجوہات قرار دیا۔ ان کے بقول درخت پانی کے بہاؤ کو منظم رکھتے ہیں لیکن جنگلات کی تباہی نے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کا حال
اسلام آباد، جو اپنی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے بھاری بارش برداشت کر سکتا ہے، بھی حالیہ فلیش فلڈز سے متاثر ہوا۔ سیدپور گاؤں میں گاڑیاں پانی میں بہہ گئیں۔ ماہرین کے مطابق ناقص سیوریج سسٹم اور غیر معیاری نکاسی آب کے ڈھانچے اس کی وجہ ہیں۔ راولپنڈی میں بھی نالہ لئی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی، جس سے شہری سیلاب کی شدت بڑھی۔
سابق ڈائریکٹر جنرل سی ڈی اے سرور سندھو نے کہا کہ اسلام آباد میں تباہی انسانی پیدا کردہ مسائل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیدپور گاؤں میں نکاسی آب کے نالے کو 'ماڈل ولیج‘ بنانے کے نام پر چھوٹا کر دیا گیا، جو سیلاب کا باعث بنا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے پانی کے بہاؤ کے راستوں میں ''عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت‘‘ دے رہی ہے اور ایسا کرنا مستقبل میں بھی بڑے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔
ادارت: امتیاز احمد