2015ء پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی واپسی کا سال ہوگا: سیٹھی کا خصوصی انٹرویو
11 اگست 2014ان کے مطابق ٹیم سلیکشن سے پچانوے فیصد سفارشی کلچر کو ختم کیا گیا ہے اور اگر نئے نظام کو پٹری سے نہ اتارا گیا تو چارسال بعد پاکستان دنیا کی نمبر ایک ٹیم بن جائے گی۔
لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر ڈی ڈبلیو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں نجم سیٹھی کا کہنا تھا، ’’میں صرف تین ماہ کے لیے الیکشن کرانے پی سی بی آیا تھا مگر مفاد پرستوں نے عدالتوں کے ذریعے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اب عدالتوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ غیرسنجیدہ عرض داشتوں کو اہمیت دینے سے ناصرف پاکستان کرکٹ کو نقصان ہوا بلکہ توہین عدالت بھی کی گئی۔ اس لیے اب امید ہے کہ رواں ماہ الیکشن کے بعد پی سی بی کو کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔‘‘
نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا کہ اگلے برس پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو جائے گی، ’’جائلز کلارک کی مدد سے چند ماہ قبل آئرلینڈ سے لاہور میں تین ایک روزہ میچوں کا معاہدہ ہوا تھا، میچ کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شہر کی مکمل حفاظت کی بھی حامی بھری مگر کراچی ایئرپورٹ واقعہ کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے خدشات ظاہر کرنے پر ہم نےآئرش ٹیم کی میزبانی سے معذرت کرلی البتہ اگلے سال یہاں غیرملکی ٹیم آوے ہی آوے۔‘‘
سیٹھی کے مطابق پی سی بی میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والےسفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انہوں نے وقار یونس اور مشتاق احمد سمیت دیگر پیشہ ورکوچز کا تقرر کیا اور اس سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی آئی، ’’نئے دور میں صرف میرٹ اور پروفیشنل ازم کا بول بالا نہیں ہوگا بلکہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے فرسودہ نظام کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ کراچی اور ملتان میں اکیڈمیز اگلے بارہ ماہ میں فعال ہوجائیں گی۔ پاکستان سُپرلیگ کرانے کا بڑا قدم اٹھایا ہے اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو پی سی بی کو بہت آمدن ہوگی۔‘‘
نجم سیٹھی کے بقول سابقہ بورڈ کے غلط چلن کے سبب پاکستان کرکٹ کی دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ میں نے پی سی بی کا مقدمہ لڑا اور پاکستان کی آئی سی سی میں اہمیت بحال کرائی۔ بھارت سے چھ سیریز کا معاہدہ طے کیا۔ اگر میرے دور کی پالیسیز کوچلنے دیا گیا تو چار برس بعد پاکستان دنیا کرکٹ میں اپنا لوہا منوا لے گا۔
نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین پی سی بی کی کارکردگی کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے منسوب کرنا جائز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں منتخب حکومتوں کی طرح چیئرمین کرکٹ بورڈ کو بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ چیئرمین کا کام انتظامی ہوتا ہے، ’’ٹیم جیت جائے تو لوگ کپتان کوکندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور ہارنے پرگالی چیئرمین کو پڑتی ہے، جس میں ماضی کے کھلاڑیوں اور سابقہ بورڈ سربراہان کی سیاست کار فرما ہوتی ہے۔ یہ لوگ پچھلے دروازوں سے پی سی بی میں دوبارہ گھسنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ پی سی بی میں آج تک تمام بورڈ سربراہان ایوان صدر سے نامزد ہو کر آتے رہے مگر دوہرا معیار یہ ہے کہ یہ دوسروں کو غیر جمہوری ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ عہدہ کوئی نہیں چھوڑتا، میں بھی چاہتا تو تین سال کے لیے متفقّہ چیئرمین بن جاتا مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے خود یہ عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا کیونکہ صحافت ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔‘‘
پاکستانی ٹیم کی سلیکشن کے بارے میں سیٹھی کا کہنا تھا کہ سلیکٹرز ایک دوسرے کی پسند کا خیال رکھتے تھے۔ ناکامی کا ملبہ سلیکٹرز اور کپتان ایک دوسرے پر ڈال دیتے تھے،اس لیے طویل صلاح مشوروں کے بعد اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر طریقہ کار کی اصلاح کی گئی۔ آج ٹیم سلیکشن میں پچانوے فیصد سفارشی کلچرکا خاتمہ ہوچکا ہے۔
سیٹھی کے مطابق مصباح الحق کو عالمی کپ 2015ء تک کپتان مقرر کرنا ایک آسان فیصلہ تھا، ’’کچھ لوگ آفریدی کو کپتان دیکھنا چاہتے تھے، ٹیم میں گروپ بندی کو ہوا مل رہی تھی، میں نے اپنے انتظامی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے مصباح کے ریکارڈ اور قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا اور ٹیم کو تقسیم ہونے سے بچالیا۔ یہی وجہ ہے میرے دور میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔‘‘
بورڈ میں بیتے اپنے تیرہ ماہ کو یاد کرتے ہوئے سیٹھی نے مزید کہا کہ انہوں نے کرکٹرز کی خوشحالی کے لئے کئی اقدامات کیے اور پی سی بی سے 125غیر ضروری ملازمین کو برطرف کیا۔ سابقہ ٹیسٹ کرکٹرز کی پینشن میں پچاس فیصد تک اضافہ کیا اور سیریز جیتنے پر پاکستانی ٹیم کا وننگ بونس ڈبل کر دیا۔
پاک بھارت ٹیسٹ سیریز کا مستقبل تابناک قراردیتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ میری چڑیا کے مطابق اگلے برس جنوری میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد بھارتی دفترخارجہ سے بھی کرکٹ سیریز کو گرین سگنل مل جائے گا۔ ہم نے ایک عرصے کے بعد بھارتی بورڈ کو ایف ٹی پی پر دستخط کرنے پر قائل کیا اور سرحدی جھڑپوں کے باوجود اگلے سال دونوں ملکوں میں سیریز کی بحالی بھی ہو کر رہے گی۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پی سی بی کے نئے آئین میں پیٹرن کے اختیارات بہت کم ہوچکے ہیں اور اگر انہیں بالکل ہی ختم کر دیا جاتا تو پی سی بی ایک بے پتوار کا سفینہ بن جاتا، ’’ گورننگ بورڈ میں رہنے کا میرا مقصد پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔ نئے آئین کو آئی سی سی نے بھی تسلیم کیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی سراہا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں نجم سیٹھی نے کہا کہ انہوں نے کرکٹ بورڈ میں بہت محنت کی اس لیے ناجائز تنقید سن کر انہیں بہت دکھ ہوا، ’’مجھے میرے پرانے دوست اور سابق ٹیسٹ اوپنر آفتاب گل نے کرکٹ بورڈ جاتے وقت روکا تھا کہ آپ سانپوں کی دنیا میں کیوں جا رہے ہیں؟ مگر اس وقت تک میں سانپوں کی دم پر پاؤں رکھ چکا تھا۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ۔‘‘