یوکرائن میں صدارتی الیکشن، مشرق میں کشیدگی
25 مئی 2014سابقہ سوویت جمہوریہ یوکرائن میں سیاسی استحکام کے لیے آج اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ الیکشن ایک ایسے وقت منعقد کیے جا رہے ہیں جب ملک کے مشرقی علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسند مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ آج اتوار کے روز بھی یوکرائن کی فورسز اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ دونوں جانب سے مارٹر گولوں سے فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا۔ ان حملوں کی لپیٹ میں آ کر ایک اطالوی صحافی، آندریا رانکیلی اور ان کے روسی مترجم ہلاک ہو گئے۔ اس بات کی تصدیق یوکرائن کے حکام کے حوالے سے اطالوی وزارت خارجہ نے کی ہے۔
خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچے ہوئے ملک یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے اکثر علاقوں میں عوام کی بڑی تعداد پولنگ اسٹیشنوں کے باہر جمع تھی جب کہ ملک کے بعض مشرقی علاقوں میں صورت حال بالکل برعکس رہی۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یوکرائن کے عوام ان انتخابات میں سابق صدر وکٹور یانوکووچ کی حکومت کے خلاف باضابطہ طور پر ووٹ دے کر ثابت کر دیں گے کہ وہ یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں، تاہم یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روس نواز باغیوں نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ وہاں صدارتی انتخابات نہیں ہونے دیں گے اور ایسا آج جزوی طور پر دیکھنے میں بھی آ رہا ہے۔
یوکرائن کا سابقہ علاقہ کریمیا روس کے ساتھ پہلے ہی الحاق کر چکا ہے جب کہ کئی دیگر علاقوں میں روس کے ساتھ شمولیت کی تحریک جاری ہے۔ دونیتسک اور لوہانسک نامی صوبوں کو باغی ’آزاد ریاستیں‘ قرار دے چکے ہیں۔ یوکرائن کے حکام کے مطابق ان صوبوں میں آج صرف بیس فیصد پولنگ اسٹیشن کھلے تھے۔ دونیتسک میں صرف سولہ فیصد ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی حاصل ہو سکی۔
صدارتی انتخابات میں اصل معرکہ سابق وزیر اعظم یولیا تیموشینکواور مغرب کے قریب تصور کیے جانے والے بزنس مین پیٹرو پوروشینکو کے درمیان ہے۔
ملکی دارالحکومت کییف میں ایک پینسٹھ سالہ شخص نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا، ’’یہ انتہائی اہم انتخابات ہیں۔ ہمیں یوکرائن کو ایک واقعی آزاد اور طاقت ور ملک بنانا ہوگا۔‘‘
روسی صدر ولادیمیر پوٹن مشرقی یوکرائن کو ’نیا روس‘ قرار دے چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق مشرقی یوکرائن اور کریمیا میں ووٹنگ کی کم شرح کو روس ان علاقوں کی ’آزادی‘ کا جواز بنا کر پیش کر سکتا ہے۔
کل ہفتے کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے یوکرائن کے انتخابات اور وہاں جاری بحران کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بات چیت کی تھی۔ چانسلر آفس کے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ ٹیلی فونک کانفرنس پر ہونے والی اس گفتگو میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ بھی شریک تھے۔ جرمن چانسلر کے دفتر کا کہنا ہے کہ اس گفتگو میں تینوں رہنماؤں نے یوکرائن کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور وہاں ہونے والے صدارتی انتخابات کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں پرامن انعقاد پر اتفاق کیا۔