یوکرائن میں بدترین مظاہرے، متعدد افراد ہلاک
19 فروری 2014مرنے والوں میں چھ سکیورٹی اہلکار اور دیگر شہری ہیں۔ پولیس کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ منگل کی جھڑپوں کے نتیجے میں مرنے والوں میں سات پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے بعض گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے اور بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ مظاہرین کے ایک نمائندے کے مطابق شہری ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہے۔
یہ خونریز جھڑپیں منگل کو ہوئیں جو یوکرائن کی آزادی کے 22 برس کا بدترین دِن ثابت ہوا ہے۔ زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرائن کے صدر وکٹر یانوکووچ کے خلاف دارالحکومت کییف کے مرکزی چوراہے پر قابض مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان گھنٹوں جھڑپیں جاری رہیں۔
مغربی حکومتیں فریقین پر برداشت اور مذاکرات کے لیے زور دے رہی ہیں۔ تاہم منگل کو سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو بدامنی ختم کرنے کے لیے ایک ڈیڈ لائن دی جس پر عمل درآمد نہ کرنے پر سخت کارروائیوں کے لیے خبردار کیا گیا۔
اسٹیٹ سکیورٹی سروس (ایس بی یو) اور وزارتِ داخلہ نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا تھا: ’’اگر شام چھ بجے تک بدامنی ختم نہ ہوئی تو ہم قانون کے مطابق امن کی بحالی کے پابند ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد پولیس کییف کے آزادی چوک کی جانب بڑی۔ وہاں موجود مظاہرین نے پولیس پر پٹرول بم اور پتھر برسائے۔ پولیس اور مظاہرین کی درمیانی لائن پر خیمے اور ٹائر جل رہے تھے۔ ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیے جانے والے مناظر میں دیکھا گیا کہ پولیس نے مظاہرین کو بے ہوش کرنے کے لیے ان پر دھواں چھوڑنے والے گرینیڈ پھینکے۔
قبل ازیں اپوزیشن رہنما اور سابق باکسنگ ورلڈ چیمپئن ویٹالی کلچکو نے کہا تھا کہ مظاہرین آزادی چوک نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آزادی کی علامت ہے اور اس کا دفاع کیا جائے گا۔ کلچکو کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ منگل کو رات گئے بات چیت کے لیے یانوکووچ کے دفتر پہنچے ہیں۔
یورپی یونین کے انلارجمنٹ کمشنر اشٹیفان فیولے نے کہا ہے کہ انہوں نے یوکرائن کے قائم مقام وزیر اعظم سے بات کی ہے جنہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ حکام آتشیں اسلحے کے استعمال سے پرہیز کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
اُدھر واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ امریکا کو ان پرتشدد واقعات پر بہت دُکھ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہ یانوکووچ پر اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات بحال کرنے کے لیے زور دیا گیا ہے۔ کارنی نے کہا: ’’طاقت سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘