’یوکرائن، مشرق و مغرب کے مابین میدان جنگ نہیں‘
26 فروری 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ منگل 25 فروری کو یورپی یونین، امریکی اور روسی اعلیٰ سفارتکاروں کے مابین یوکرائن پر ہونے والے ہنگامی مذاکرات تناؤ کا شکار رہے تاہم بعد ازاں تینوں فریقوں نے کہا کہ یوکرائن کے عوام کو یورپ یا روس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ویک اینڈ پر صدر یانوکووچ کو معزول کیے جانے پر ماسکو حکومت نے انتہائی سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کییف کی نئی قیادت ’فوجی بغاوت‘ کی طرف جا رہی ہے تاہم منگل کو اس روسی مؤقف میں کچھ نرمی دیکھی گئی۔
منگل کو روسی وزیر خارجہ نے اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوئے کہا، ’’ہم اپنے اصولی مؤقف پر برقرار ہیں کہ یوکرائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرائن کو روس یا مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے، ’’ہم چاہتے ہیں کہ یوکرائن یورپی فیملی کا حصہ رہے، یہ انتہائی خطرناک ہو گا کہ اسے انتخاب پر مجبور کیا جائے۔‘‘
اس نئی صورتحال میں ایک طرف تو یوکرائن دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جبکہ دوسری طرف عبوری صدر تریشنوف نے خبردار کیا ہے کہ یوکرائن منقسم ہونے کے خطرات سے دوچار ہے۔ منگل کو ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ اگر کییف میں مغرب نواز حکومت قائم کی جاتی ہے تو ملک کے مشرقی علاقوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روسی زبان بولی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ اسی تناظر میں ملک کی نئی یونٹی حکومت کے قیام کے عمل میں بھی تاخیر کر دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تمام سیاسی فریقین سے مکمل مشاورت کے بعد متوقع طور پر جمعرات کو نئے نگران وزیر اعظم کے نام کا اعلان کیا جائے۔
اسی بحرانی صورتحال میں گزشتہ روز امریکا اور یورپی یونین کے متعدد اعلیٰ سفارتکاروں نے یوکرائن کے دورے کیے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے کییف میں نئی قیادت سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ یورپی یونین یوکرائن کی اقتصادی مشکلات دور کرنے کے لیے مشروط مالی امداد فراہم کر سکتی ہے۔ کییف کی نئی قیادت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے 35 بلین یورو کی مالی امدادی کی اپیل کی ہے۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے برطانوی ہم منصب ولیم ہیگ سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ یوکرائن کو مغرب اور مشرق کے مابین میدان جنگ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں اعلیٰ سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یوکرائن کی ملکی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے اس ملک کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
منگل کو ہونے والی ایک اور اہم پیشرفت میں یوکرائن کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ معزول صدر یانوکووچ کے خلاف ’قتل عام‘ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ کییف میں حالیہ دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں کم ازکم سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ملکی پارلیمان نے ان ہلاکتوں کے لیے یانوکووچ اور دیگر اعلیٰ اہلکاروں پر الزام عائد کیا ہے۔ آئی سی سی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انہیں ابھی تک یانوکووچ کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی کوئی باضابطہ درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔