یوکرائن: محاذ آرائی کے خاتمے کا سمجھوتا
20 فروری 2014بدھ کی شام کو صدر وکٹور یانوکووچ اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان ملاقات کا بتایا گیا ہے۔ صدر سے ملاقات کرنے والوں میں اپوزیشن رہنما آرسینی یاٹسینی یُک (Arseniy Yasenyuk)، سابق باکسنگ ورلڈ چیمپئن ویٹالی کلچکو اور اولےتیانےبوک (Oleh Tyanihbok) شامل ہیں۔ صدر کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ صدر نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ معاہدے پر اتفاق کرنے کے علاوہ بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ مذاکرات کا تعلق پر تشدد ہنگاموں کو روکنا مقصود ہے۔ صدر سے بات چیت کے بعد اپوزیشن رہنما آرسینی یاٹسینی یُک نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ آزادی چوک میں جمع مظاہرین پر اب پولیس دھاوا نہیں بھولے گی۔
یوکرائن میں خون ریز مظاہروں کے دوران کم از کم 26 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ان میں دس پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ وزیر صحت (Raisa Bohatyryova) نے جہاں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے وہاں یہ بھی بتایا کہ 263 مظاہرین زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے ہیں جب کہ 342 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ کییف کا مرکزی آزادی چوک گزشتہ رات بھر میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ یوکرائن کے مشرقی حصے میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے اور اِس حصے میں یانوکووچ حکومت کے حامیوں نے اپوزیشن جماعتوں کے دفاتر پر حملے بھی کیے۔ ان خونریز ہنگاموں کے حوالے سے صدر یانوکووچ نے اپوزیشن پر الزام رکھا ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی سے حکومت پر قبضے کی کوشش میں ہے۔
یوکرائن میں امن و سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ماسکو اور مغربی طاقتیں اپنی اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یورپی یونین کے تین ملکوں کے وزرائے خارجہ آج جمعرات کو کییف پہنچ رہے ہیں۔ ان میں جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔ یوکرائنی دارالحکومت میں تینوں وزرائے خارجہ فریقین کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی ایک ہنگامی میٹنگ بھی طلب کر لی گئی ہے اور اُس میں یوکرائن کی موجودہ صورت حال کو زیر بحث لاتے ہوئے یونین کوئی رد عمل ظاہر کر سکتی ہے۔ بعض سفارتکاروں کے مطابق یونین کی جانب سے کییف حکومت پر چند پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
اُدھر روسی صدر ولادی میر پوٹین کے ترجمان ڈمیٹری پیسکوف نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ روسی صدر نے خون ریز مظاہروں کے تناظر میں صدر یانوکووچ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ پیسکوف کے مطابق یوکرائن کے لیے روسی امداد کو سردست روک لیا گیا ہے کیونکہ بحرانی صورت حال کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس دوران روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مغرب پر الزام رکھا گیا ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران میں اپوزیشن کے کردار کی مذمت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
میکسیکو کے دورے پر گئے امریکی صدر باراک اوباما نے یوکرائن میں خون ریز مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حالات کو مذاکراتی عمل سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کییف حکومت کو خبردار کیا کہ اگر ایسی صورت حال برقرار رہتی ہے تو یوکرائن کو سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اوباما کا مزید کہنا ہے کہ یوکرائنی فوج کو موجودہ صورتحال میں مداخلت کرنے سے گریز کرنا ہو گا اور سویلین حکومت کو چاہیے کہ وہ اِس بحرانی صورت حال کا حل باہمی گفتگو سے نکالے۔ امریکی حکومت نے پُر امن مظاہرین کے ساتھ سخت برتاؤ کا ذمہ دار کییف حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ قبل ازیں امريکی نائب صدر جو بائیڈن نے يوکرائن کے دارالحکومت کييف ميں مظاہرين کی ہلاکتوں پر گہری تشويش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے منگل کے روز يوکرائن کے صدر وکٹر يانوکووچ سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کيا تھا۔
بدھ کے روز یوکرائنی وزارت دفاع کے اعلان میں بتایا گیا کہ ملک میں سلامتی کی خراب ہوتی صورت حال کے تناظر میں فوج کی تعیناتی ممکن ہے اور ملک گير دہشت گردانہ کارروائیوں کے انسداد کا آپریشن بھی شروع کيا جا سکتا ہے۔ اس دوران یوکرائن کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ فوج کے سربراہ کرنل جنرل وولدومیر زامانا (Volodymyr Zamana) کو یوکرائنی فوج کے سربراہ کے منصب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اُن کی جگہ فوری طور پر بحریہ کے سربراہ ایڈمرل یوری الین (Yury Ilyin) کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔