یوکرائن جنگ کے دہانے پر
27 مئی 2014تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مشرقی یوکرائن کے شہر ڈونیٹسک کے ہوائی اڈے کا کنٹرول دوبارہ سے یوکرائن کے دستوں نے حاصل کر لیا ہے۔ اس صنعتی شہر کا ایئر پورٹ گزشتہ روز سے علیحدگی پسندوں کے قبضہ میں تھا۔ اس دوران کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں سرکاری دستوں کوجنگی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور چھاتہ برداروں کی بھی مدد حاصل رہی۔
یوکرائن کے نئے سربراہ مملکت پیٹر پوروشینکو نے کہا ہے کہ ملک دشمن عناصر سے بات چیت نہیں کی جائے گی: ’’دہشت گردی کے خلاف ہمارا آپریشن پہلے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں جاری ہے۔ اس کارروائی کو دو یا تین مہینوں تک جاری نہیں رکھا جا سکتا بلکہ یہ صرف گھنٹوں جاری رہ سکتی ہے۔‘‘
یوکرائن کے حکام نے ملک کے مشرقی حصے میں جاری لڑائی کو تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا ہے۔ تاہم کییف حکومت کے مطابق اس دوران سرکاری دستوں کو کوئی نقصان اٹھانا نہیں پڑا ہے۔ ڈونیٹسک کے خود ساختہ وزیراعظم الیگزینڈر بورودائی کے بقول اب تک سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ان میں تقریباً پچاس علیحدگی پسند ہیں۔
اس دوران روس نے ایک مرتبہ پھر یوکرائن سے فوری طور پر آپریشن روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ماسکو حکام نے کہا کہ وہ یوکرائن کے نئے صدر پیٹر پوروشینکو سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں۔ دوسری جانب کییف حکومت نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو مشرقی علاقوں میں لڑنے کے لیے بھیج رہا ہے۔ یوکرائن کی وزارت خارجہ کے مطابق، ’’ایسے شواہد ہیں جن کی بناء پر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ روسی دہشت گرد یوکرائن میں موجود ہیں۔ یہ لوگ براہ راست کریملن سے رابطے میں ہیں اور ان کو ہر طرح کا تعاون بھی وہیں سے حاصل ہو رہا ہے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ ڈونیٹسک میں باغیوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ باغیوں کے رہنما ڈینس پوشیلن کے بقول وہ کسی صورت بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے: ’’ڈونیٹسک اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ممنکہ طور پر بہت جلد انسانی بحران کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں ہم روسی عوام کی جانب سے ہر طرح کی مدد پر ان کے شکر گزار ہوں گے۔‘‘
سلامتی اور تعاون کی یورپی تنظیم ’او ایس سی ای‘ نے بتایا ہے کہ تنظیم کےچار مبصرین سے اُن کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ او سی ایس ای کے مطابق مبصرین سے آخر مرتبہ رابطہ اس وقت ہوا جب وہ ڈونیٹسک کے مشرقی حصے میں تھے۔ او سی ایس ای اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ایک ہزار سے زائد مبصرین ویک اینڈ پر ہونے والے صدارتی انتخابات کی نگرانی کے لیے یوکرائن میں تھے۔