یورپ کی امریکا کے قریبی ساتھی کی حیثیت برقرار رہے گی، ماہرین
7 نومبر 2012یورپی سطح پر کرائے جانے والے جائزوں کے مطابق اگر سماجی اور داخلی سیاست کی بات کی جائے تو یورپی عوام خود کو مٹ رومنی کے مقابلے میں اوباما سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کونسٹانز میں سیاسی امور کے ماہر ماریُئس بوزے مائر’Marius Busemeyer‘ نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔ امریکی امورکے متعدد یورپی ماہرین کے لیے بھی یہ ایک اچھی خبر ہے۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل پولیٹکس کے ہائنز گئیٹنر’ Heinz Gartner‘ کے بقول یورپ اوباما کے بارے میں اچھی طرح سے جانتا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کا مقابلہ کس سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کو مٹ رومنی کے نظریات کا صحیح اندازہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف موضوعات پر کئی مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔
فرانسیسی شہر لیون کی یونیورسٹی میں امریکی امور کے ماہر ونسنٹ میشیولو’ Vincent Michelot‘ کہتے ہیں کہ اوباما کے پاس یورپ سے متعلق اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے بقول دوسری جانب اوباما یورپ سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ اقتصادی بحران کو حل کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے کیونکہ امریکی معیشت میں بہتری کا دار و مدار یورپی اقتصادی صورتحال پر بھی ہے۔
صرف اقتصادیات کی بات ہی نہیں بلکہ اوباما انتظامیہ بین الاقوامی معاملات میں بھی یورپ سے مزید تعاون کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں ہائنز گئیٹنر’Heinz Gartner‘ نے شام میں خانہ جنگی کا ذکر کیا۔ ان کے بقول واشنگٹن حکومت ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے معاملے میں بھی یورپ سے اسی طرح کے مطالبے کر سکتی ہے۔ تحفظ ماحول اور اس سے متعلق سیاست یورپ کے پسندیدہ موضوعات میں شامل ہے اور یورپی ممالک کو امید ہے کہ اوباما ایک مرتبہ پھر اس موضوع کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں شامل کر سکتے ہیں۔
واشنگٹن حکومت نے اپنی خارجہ سیاسی پالیسیوں میں ایشیا کو ترجیحی اہمیت دینے کا اعلان کیا ہے تاہم ماہرین کے بقول اس کے باوجود یورپ کی امریکا کے قریبی ساتھی کی حیثیت برقرار رہے گی۔ ونسنٹ میشیولو’ Vincent Michelot‘ کے خیال میں اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہوا کہ یورپ کو امریکا نے اچانک تنہا چھوڑ دیا ہو یا یہ کہ ان کے روابط میں سرد مہری آ گئی ہو۔ میشیولو کے بقول واشنگٹن کو یورپ کے اقتصادی بحران پر تشویش تو ہے لیکن ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے کو حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔
ہائنز گئیٹنر’ Heinz Gartner‘ کے بقول اگر مٹ رومنی صدر منتخب ہو جاتے تو یورپ ویسے ہی تقسیم ہو جاتا، جیسا جارج بش کے دور میں تھا۔ چین ، روس اور مشرقی وسطی سے متعلق رومنی کی پالیسیاں یورپ کو تقسیم کر دیتیں اور یہ صورتحال یورپ کے لیے ایک بہت بڑی تباہی ثابت ہو سکتی تھی۔
M.Knigge / ai / ia