یورپ پہنچنے کی کوشش میں درجنوں ہلاک
3 اکتوبر 2013آج صبح اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا کے قریب حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی پر کم ازکم پانچ سو افراد سوار تھے۔ امدادی کارکنوں نے 120 افراد کو زندہ بچا لیا ہے، جب کہ سرچ آپریشن ابھی جاری ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ہلاک شدگان میں متعدد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
لامپے ڈوسا کی میئر گیوسی نکولینی نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک بڑا افسوس ناک سانحہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب کشتی پر سوار تارکین وطن نے ساحل پر موجود افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آگ روشن کی۔
کشتی پر سوار اکثر افراد کا تعلق صومالیہ اور اریٹریا سے تھا۔ گیوسی نکولینی کے مطابق ’’اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے افراد ابھی صدمے کی حالت میں ہیں، وہ صبح سے پانی میں پھنسے ہوئے تھے۔‘‘ امدادی کارکن مزید لوگوں کو بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
جب یہ حادثہ پیش آیا، اس وقت یہ کشتی لامپے ڈوسا کے ساحل سے صرف نصف میل کے فاصلے پر موجود تھی۔ کشتی پر کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو جانے کی وجہ سے اُس پر موجود افراد نے کوسٹ گارڈ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آگ روشن کی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس موقع پر بھگدڑ کی وجہ سے کشتی الٹ گئی اور اس پر سوار لوگ پانی میں گر گئے۔
مقامی طبی اہلکار انٹونیو کینڈیلا کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے افراد کو ابتدائی امداد مقامی لوگوں نے فراہم کی، جو اپنی تفریحی کشتیوں پر سمندرمیں موجود تھے۔ کینڈیلا کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے اکثر افراد کا تعلق مشرقی افریقی ملک صومالیہ سے تھا۔
لامپے ڈوسا ایک اطالوی جزیرہ ہے، جو تیونس اور سسلی کے درمیان واقع ہے۔ یہ یورپی یونین میں آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کا سب سے بڑا داخلی راستہ ہے۔ ہر سال خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں غربت، جنگ اور تعاقب کے ستائے ہوئے ہزاروں تارکین وطن پرانی اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں کئی کئی دن کے سمندری سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد لامپے ڈوسا پہنچتے ہیں۔
اس حادثے سے کچھ دیر قبل بھی ایک کشتی جس پر 463 تارکین وطن سوار تھے، لامپے ڈوسا پہنچی تھی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کشتی پر شامی تارکین وطن سوار تھے۔ پیر کے روز بھی پناہ کے متلاشی 13 تارکین وطن اس وقت ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے، جب ان کی کشتی سسلی کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔