یورپ اور پناہ گزینوں کے حقوق
15 نومبر 2013اب تک معاملہ کچھ یوں تھا کہ پناہ کا متلاشی شخص یورپی یونین کے جس رکن ملک میں پہلی بار قدم رکھتا تھا، وہی ملک اس کی پناہ کی درخواست کی جانچ پڑتال کرنے کا حق رکھتا تھا۔ اس پناہ گزین کے یورپی یونین کے ایک رکن ملک سے دوسرے رکن ملک منتقل ہونے کی صورت میں اس دوسرے ملک کو یہ استحقاق تھا کہ وہ درخواست گزار کو اس ملک واپس بھیج دے گا جہاں سے وہ آیا تھا۔ یہ قانون دس برس قبل تیار کیا گیا تھا اور برسلز میں موجود سیاست دان اور بیوروکریٹس اسے ’’ڈبلن ٹو ریگولیشن‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
لیکن ایسی صورت میں کیا ہو جب ایک نئے ملک میں اس پناہ گزین کے ساتھ بد سلوکی کی جائے یا اس کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا جائے؟ یورپی ملک لگسمبرگ میں قائم یورپی عدالت برائے انصاف نے اب اس معاملے پر ایک حکم صادر کر دیا ہے۔
یہ حکم ایک ایرانی پناہ گزین کے ڈبلن ریگولیشن کو چیلنج کرنے کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ یہ شخص سن دو ہزار سات میں یونان پہنچا تھا جہاں سے وہ جرمنی منتقل ہو گیا تھا۔ جرمن حکام نے اس کی پناہ کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے ذمہ دار نہیں۔ جرمن حکام نے اس ایرانی شخص کو واپس یونان بھیج دیا جہاں وہ کچھ عرصے جیل میں رہا اور بعد میں کئی ماہ تک اس نے سڑکوں پر وقت گزارا۔
یورپی عدالت نے ڈبلن ریگولیشن کو ختم تو نہیں کیا تاہم اس میں یہ اصلاح کی ہے کہ اگر کسی پناہ گزین کو یورپی ملک میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ملک جہاں سے اس کو نکالا گیا ہے اس شخص کی پناہ کی درخواست کا جائزہ لینے کا پابند ہوگا۔
یورپ میں وہ جماعتیں جو پناہ گزینوں کی اپنے ممالک میں موجودگی کے خلاف ہیں، خاصی مضبوط ہیں، تاہم ایسے لوگوں اور تنظیموں کی بھی کمی نہیں، جو پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں انسانی حقوق کی ایسی ہی ایک کارکن کارل کوپ نے یورپی عدالت برائے انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ڈبلن ریگولیشن منہ کے بل گر جائے گی۔ ’’یورپی ممالک پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمنی سمیت ڈبلن ضوابط کے حامی موجود نظام کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔