یورپی یونین کے خلاف لندن کی بڑھتی بیان بازی
15 اکتوبر 2012برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنی پارٹی میں موجود دائیں بازو کے عناصر کی جانب سے بڑھتے دباؤ کا سامنا ہے اور غالباً یہی دباؤ یورپی یونین کی جانب اُن کے تند و تیز بیانات کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اپنے تازہ بیان میں کیمرون نے ایک بار پھر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے موضوع پر ایک ریفرنڈم منعقد کروانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس ریفرنڈم کا تعلق یونین سے برطانیہ کے اخراج سے نہیں ہو گا تاہم کیمرون کے خیال میں یونین اپنے رکن ملکوں کے قومی اور سماجی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت کر رہی ہے۔
یورپی یونین کے بارے میں شک و شبے کے شکار برطانوی حلقوں کے خیال میں یہ ریفرنڈم نہ صرف اُن اختیارات کو واپس لینے کا ایک سنہری موقع ہو گا، جو لندن حکومت اب تک یونین کے حوالے کر چکی ہے بلکہ برطانیہ اُن مالیاتی ذمہ داریوں سے بھی بچ جائے گا، جو یورپی بحران کے باعث اُس پر عائد ہوں گی۔
گزشتہ ہفتے اپنی کنزرویٹو پارٹی کی ایک کانگریس کے موقع پر کیمرون نے دھمکی دی کہ اگر یورپی یونین کے دیگر رکن ملک یونین کے اخراجات پر کنٹرول کرنے یعنی اُنہیں ایک خاص حد کے اندر اندر رکھنے پر راضی نہ ہوئے تو وہ یونین کے بجٹ سے متعلق مذاکرات کا بائیکاٹ کریں گے۔ کیمرون نے یہ بھی کہا کہ آئندہ ہو سکتا ہے کہ دو بجٹوں کی ضروت پڑے، ایک یورو کے رکن ملکوں کے لیے اور ایک اُن ملکوں کے لیے، جو یورو زون میں نہیں ہیں۔
مبصرین کے خیال میں اس طرح کے بیانات دیگر رکن ممالک کی جانب سے غم و غصے کے اظہار کا بھی باعث بن سکتے ہیں، مثلاً 18 اور 19 اکتوبر کو یونین کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر، جہاں خاص طور پر مالیاتی یونین سے متعلق تجاویز پر بحث ہونے والی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ یورپی انضمام کا حامی تو ہے لیکن اُسی صورت میں کہ خود اُس کے مفادات پر کسی بھی طرح سے کوئی زَد نہ پڑے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ لندن اور برسلز کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
تاہم کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن جیمز ایلس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیمرون نے اتنے سخت الفاظ محض پارٹی کانگریس میں موجود اُس دھڑے کو پرسکون کرنے کے لیے استعمال کیے، جو یونین کی جانب معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔
سینٹر فار یورپین اسٹڈیز CEPS کے ماریو انسرٹی کے خیال میں برطانوی حکومت کے یورپ مخالف بیانات سے یورپی یونین کے اندر اس ملک کے اثر و رسوخ میں کمی کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یورپ کے مالیاتی مرکز کے طور پر لندن کا ایک مخصوص کردار ہے اور برطانیہ کو آئندہ بھی یونین کے ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل رہے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ جہاں تک ریفرنڈم کا سوال ہے، یورپی یونین میں بہت سے حلقے اُس کا خیر مقدم ہی کریں گے کیونکہ اس سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی کہ یا تو یہ ملک بھرپور طریقے سے اس برادری کا رکن بننے کے حق میں فیصلہ دے دے گا اور یا پھر وہاں کے عوام اس سے حتمی طور پر الگ ہو جانے کے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔
J.Impey/aa/aba