یورپی یونین: بڑی توسیع کے دس سال
1 مئی 2014ٹھیک دَس سال پہلے یکم مئی 2004ء کو دَس یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں آتش بازی کے مظاہروں، لائٹ شوز اور بہت بڑی تعداد میں لہراتے یورپی پرچموں کے ساتھ یونین میں شمولیت کا جشن منایا گیا تھا۔ یونین کی تاریخ کی اس سب سے بڑی توسیع پر بے پناہ خوشی کا بھی اظہار کیا گیا لیکن ساتھ ساتھ اس سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ کی گئیں۔
صرف ایک طبقہ یعنی یونین کے پرانے رکن ممالک کا آجر طبقہ ایسا تھا، جو مشرقی یورپ کی جانب اس توسیع کو ملے جُلے احساسات کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس توسیع کا ایک مطلب تو یہ تھا کہ زیادہ بڑی تعداد میں صارفین کی حامل ایک بڑی داخلی منڈی وجود میں آئے گی لیکن دوسری جانب اس توسیع کا مطلب زیادہ مقابلہ بازی بھی تھا۔
شکوک و شبہات کے شکار آجرین میں جرمنوں کی اکثریت تھی۔ کولون میں جرمن معیشت کے انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر مشائیل گروئملنگ کہتے ہیں:’’جرمن آجرین کو ایک تو جرمنی کے اندر مشرقی یورپی کمپنیوں کی مصنوعات کے ساتھ مقابلہ بازی کا خوف تھا۔ دوسرے اُنہیں یہ بھی ڈر تھا کہ جرمنی کے اندر آ کر کام کرنے والی مشرقی یورپی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ بازی بڑھ جائے گی۔ تیسرے اُنہیں یہ لگ رہا تھا کہ اب اُنہیں لاگت اور عملہ وغیرہ کم کرتے ہوئے اپنے پیداواری طریقوں کو زیادہ کم خرچ اور مؤثر بنانا ہو گا۔‘‘
یونین کے پرانے رکن ملکوں میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ نئے رکن ملکوں میں خوشحالی کے فرق اور بہت زیادہ بیروزگاری کی وجہ سے مشرق سے مغرب کی جانب بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے رجحانات سامنے آ سکتے ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 2003ء میں نئے رکن ملکوں کی فی کس اوسط آمدنی پندرہ رکنی پرانی یورپی یونین کے مقابلے میں تقریباً نصف تھی۔
آج دَس سال بعد کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود یونین میں توسیع کے عمل کے مثبت نتائج برآمد ہوئے، جس کا اندازہ ٹھوس اعداد و شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کولون کے جرمن معیشت کے انسٹی ٹیوٹ کے ایک تازہ جائزے کے مطابق 2004ء کی اس توسیع سے لے کر اب تک یونین کے نئے اور پرانے رکن ملکوں کے درمیان درآمدات اور برآمدات دونوں میں تقریباً دگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پولینڈ کی جانب جرمن برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس ہنگری کی اہمیت کم ہوئی ہے۔
دس برس بعد 2014ء میں جن جرمن آجرین سے استفسار کیا گیا، اُن کی محض دَس فیصد تعداد نے کہا کہ مشرقی یورپ کی جانب توسیع سے اُن کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے جرمن تعمیراتی شعبے کی مرکزی انجمن کے ناظم الامور فیلکس پاکلیپا کہتے ہیں:’’ہم سمجھتے ہیں کہ جرمن تعمیراتی منڈی میں اب مقابلہ بازی زیادہ سخت ہو گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اجرتوں اور سوشل انشورنس وغیرہ کا وہ فرق ہے، جو تقریباً اٹھارہ اُنیس یورو فی گھنٹہ بنتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت کاروباری ادارے کئی کئی مہینے تک یورپی یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں سرگرمِ عمل رہنے کے باوجود اپنے اپنے ملک کے سماجی انشورنس کے نظاموں کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں۔