یورپی پارلیمان کے انتخابات، ایک تبصرہ
26 مئی 2014اتوار پچیس مئی کو اٹھائیس رکنی یورپی یونین میں منعقدہ یورپی پارلیمان کے انتخابات کے نتائج دیکھ کر کسی کو بھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہی ہوا، جو ہونا ہی تھا۔ دراصل وہی ہوا ہے، جس کی کہ توقع کی جا رہی تھی۔ نئی پارلیمان میں سیاسی تقسیم اب تک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس بار بائیں بازو کے اور اُن سے بھی زیادہ دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر سٹراس برگ کی پارلیمان میں پہنچے ہیں۔
انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت کو جانچا جائے تو کچھ ملکوں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے گئے تاہم اس رجحان کا فائدہ زیادہ تر یورپی یونین کے ناقدین کو ہوا۔ اگرچہ سبھی سیاسی جماعتوں نے اس بار اپنے چوٹی کے امیدوار نامزد کیے، یورپ بھر کے دورے کرتے ہوئے مباحثوں میں شرکت بھی کی اور یوں لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لے جانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں تاہم یورپی پارلیمان کے انتخابات میں ووٹروں کی عمومی دلچسپی تشویشناک حد تک کم رہی۔
انتہا پسندوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یورپ مخالف قوتوں کے ایوان میں پہنچ جانے کے باوجود پارلیمان آئندہ بھی کام کرنے کی صلاحیت کی حامل رہے گی۔ برطانیہ کی UKIP ہو، فرانس کا نیشنل فرنٹ ہو یا پھر ڈنمارک کی پیپلز پارٹی، ان کے منتخب اراکین پارلیمان میں اپنی شعلہ بیانی کا مظاہرہ تو کر سکیں گے لیکن وہ پارلیمانی کارروائی کو روک نہیں سکیں گے۔ اس لیے بھی کہ وہ اندرونی طور پر ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے قومی معاملات تک ہی محدود ہیں۔ اُن کی بیان بازی کے مخاطب بھی زیادہ تر اُن کے اپنے ہی ہم وطن ہیں۔ وہ کسی بڑے مشترکہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے زیادہ ناخوش حلقوں کی امنگوں کے ترجمان بننا چاہیں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ دباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے یورپ دوست اعتدال پسند جماعتیں ایک دوسرے کے اور بھی قریب ہو جائیں گی اور یوں انتہاپسند قوتیں یورپی پارلیمان میں کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکیں گی۔
یورپی تعاون کے ثمرات کی قدر و قیمت
یورپی تعاون کے بے مثال ثمرات میں امن و امان کے ساتھ ساتھ سیر و سفر، تعلیم اور ملازمت کی آزادی، ایک مشترکہ کرنسی اور داخلی منڈی بھی شامل ہیں۔ یورپی شہریوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ گویا یہ سب کچھ خود بخود ہمیشہ ایسے ہی رہے گا حالانکہ اگر اس کے لیے آئندہ بھی کوشش اور محنت جاری نہ رکھی گئی تو یہ سب کچھ ہاتھوں سے جا بھی سکتا ہے۔
چند سال پہلے چند ریاستوں کے قرضوں کے بحران کے باعث یورپی یونین شدید مشکلات میں گھر گئی تھی۔ اب اس بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے لیکن محض مشترکہ کوششوں، نظم و ضبط اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے۔ اگر مختلف ممالک اپنے اپنے طور پر اس بحران پر قابو پانے کی کوشش کرتے تو سبھی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا، اُن ملکوں کو بھی، جو اقتصادی طور پر طاقتور ہیں۔
کیا یورپی اتحاد اور انضمام کے ناقدین امن و امان، اشتراکِ عمل، خوشحالی اور پُر امن بقائے باہمی کی اُن تمام کامیابیوں کو خطرے میں ڈال دینا چاہتے ہیں، جو گزشتہ ستّر برسوں میں حاصل کی گئی ہیں؟ ان ناقدین کو باقی دنیا کے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ یورپی اتحاد کے اس شاندار منصوبے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یورپی پارلیمان کے چار سال پہلے کے انتخابات کی طرح اس بار بھی ان میں ووٹروں کی شرکت کا تناسب تقریباً تینتالیس فیصد رہا۔ گویا تقریباً ستّاون فیصد رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کے حق کو ضائع کر دیا۔ یہ بات تشویشناک اور قابل افسوس ہے۔