یورپی مالیاتی بحران کی نذر ایک اور وزیر اعظم
7 فروری 2012جنوب مشرقی یورپی ملک رومانیہ میں کئی ہفتوں کے مظاہروں کے بعد وزیر اعظم امیل بوک کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ رومانیہ کے صدر ترایان باسیسکو نے امیل بوک کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد وزیر انصاف Catalin Predoiu کو عبوری وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے۔ وہ نئی حکومت کے قیام تک رومانیہ کے وزیراعظم رہیں گے۔ امیل بوک سن 2008 سے وزیراعظم چلے آ رہے تھے۔ اپوزیشن نے بوک حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے۔
رومانیہ میں حکومت سازی کے حوالے سے ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ صدر باسیسکو نے رومانیہ کے لیے بیرون ملک انٹیلیجنس سروس کے سربراہ ميهائی رازفان اونگورينو (Mihai Razvan Ungureanu) کو حکومت سازی کی دعوت بھی دی ہے۔ ان کو ساٹھ ایام کے اندر اندر کابینہ کی تشکیل اور پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہو گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو پھر رومانیہ کو قبل از وقت انتخابات کا سامنا ہو گا۔ ميهائی رازفان اونگورينو سابق وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ صدر باسیسکو کے خاصے قریب خیال کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نامزدگی کے بعد اپنے پہلے بیان میں رومانیہ میں اقتصادی و سیاسی استحکام کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
امیل بوک نے اپنے ملک میں سیاسی تناؤ اور کشیدہ فضا کو بہتر کرنے کے لیے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ رومانیہ کو بھی مالی مسائل کا سامنا ہے۔ بوک اس کوشش میں تھے کہ وہ بچتی پلان کو مختلف شعبوں میں کسی طور متعارف کروا کر رومانیہ کی معیشت میں سدھار پیدا کر سکیں۔ مگر ان کی خواہش منزل تک نہیں پہنچ پائی اور ہزاروں افراد نے ان کے کفایت شعاری کے فیصلوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جنوری سے تنخواہوں میں کمی، انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور عوام کی بڑھتی مشکلات نے لوگوں کو حکومت مخالف مظاہرے شروع کرنے کی تحریک دی۔
مستعفی ہونے والے وزیر اعظم نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، یورپی یونین اور ورلڈ بینک سے بیس بلین یورو کا قرضہ حاصل کر کے رومانیہ کے اقتصادی معاملات کو بہتر کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔ یہ امر اہم ہے کہ رومانیہ کے اقتصادی مسائل خاصے پیچیدہ ہیں اور بھاری حکومتی اخراجات کی وجہ سے مزید گھمبیر ہو رہے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مستعفی ہونے والے وزیر اعظم قبل از وقت الیکشن کے انعقاد کو پسند کریں گے اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ اگلا الیکشن ہار بھی جائیں کیونکہ وہ بہت غیر مقبول ہو کر حکومت سے علیحٰدہ ہوئے ہیں۔ اس وقت امیل بوک اور ان کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ میں حکومت ختم ہونے کے بعد بھی اکثریت حاصل ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل