یورو بانڈز: پاکستانی معیشت پر اعتماد یا سرمایہ کاروں کی لالچ
10 اپریل 2014دو ارب ڈالر مالیت کے برابر کے ان ضمانتی بانڈز کے عوض پاکستان کو اگلے دس برس تک یہ رقم ہاتھ لگ گئی ہے، جس سے بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ملک میں اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
قریب دس ماہ قبل جب وزیر اعظم نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو ان سے ان کے صنعتی و تجارتی پس منظر کی بنیاد پر یہ امیدیں لگائی گئی تھیں کہ وہ کم از کم اس شعبے میں بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات ضرور کریں گے۔ رواں ہفتے عالمی مالیاتی منڈی میں پاکستان کی جانب سے دو ارب ڈالر کے یورو بانڈز کے اجراء کو نواز حکومت کی معاشی پالیسی کا ہی ایک اہم پہلو قرار دیا جارہا ہے، جس کو حکومت تو سو فیصد فائدے کا سودا ہی کہہ رہی ہے تاہم بعض مبصرین اس پیشرفت کے حوالے سے خاصے محتاط ہیں۔
سادہ الفاظ میں یورو بانڈز کے اجراء کو یوں سمجا جاسکتا ہے کہ ریاست پاکستان نے اگلے پانچ برس تک سوا سات فیصد کی شرح سے ایک ارب ڈالر اور پھر اگلے دس برس تک سوا آٹھ فیصد کی شرح سود سے مزید ایک ارب ڈالر قرض حاصل کر لیا ہے اور یہ قرض دینے والوں کو ریاستی ضمانت کے بانڈز جاری کر دیے ہیں۔
سودے کی یہ شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے، جو ناقدین کا اولین ہدف بنی ہوئی ہے۔ رواں ہفتے ہی سری لنکا نے بھی پانچ سو ملین ڈالر مالیت کے برابر کے بانڈز جاری کیے تھے تاہم ان پر کولمبو حکومت نے شرح سود سوا پانچ فیصد سے بھی کم رکھی تھی۔
پاکستان میں فعال نجی برطانوی بینک کے چیف اکانومسٹ صائم علی کہتے ہیں کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت اب اس سرمائے کو کہاں اور کیسے استعمال کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، "اسے اگر حکومت استعمال کرتی ہے نئے منصوبوں کے لیے خاص طور پر توانائی کے شعبے میں تو بہت فائدہ ہوگا لیکن اگر اسے بس روزانہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو بہت کم فائدہ ہوگا"۔
ماہرین کے بقول عالمی سطح پر سرمایہ کار پاکستان کی جانب سے یورو بانڈز کے اجراء جیسی زیادہ منافع کی حامل اسکیموں کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد گزشتہ ماہ سے ہی پاکستانی کرنسی کی قدر میں استحکام دیکھا جارہا ہے اور ملکی زرمبادلہ کے زخائر بہتری کی جانب مائل ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اس پیش قدمی کا دفاع کرنے والے البتہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اس قدر پرکشش شرح سود رکھنا ناگزیر تھا اور بات محض دو ارب ڈالر کے حصول ہی کی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی منڈی میں اس قدر پرکشش پیش کش رکھ کر پاکستان اب سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرسکتا ہے جس کے بعد وہ آزادانہ طور پر نجی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی جانب مائل ہو سکیں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف ان دنوں چین کے دورے پر ہیں جہاں وہ علاقائی تجارت کے فروغ سے متعلق ‘احیاءِ شاہراہ ریشم مذاکرے’ میں اسلام آباد حکومت کی سرمایہ کار دوست ترجیحات کا پرچار بھی کریں گے۔ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی میں خزانہ کے وزیر اسحاق ڈار واشنگٹن کے دورے پر گئے ہوے ہیں۔