ہزاروں بنگلہ دیشی اور بھارتی باشندوں کے خواب شرمندہ تعبیر
29 جولائی 2015بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین غیر واضح سرحد پر واقع علاقوں کے باقاعدہ انتظام سے متعلق طے پانے والی ڈیل کا اطلاق 31 جولائی کی شب سے شروع ہو جائے گا۔
برطانوی راج میں ہندوستان میں پیدا ہونے والے 105 سالہ محمد علی اصغر ماضی میں دو بار آزادی کا جشن منا چُکے ہیں۔ وہ ایک 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت اور دوسری بار 1971 ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت منائے جانے والے جشن آزادی میں موجود تھے۔ بھارت میں بنگلہ دیشیوں کے ایک اکثریتی علاقے میں زندگی بسر کرنے والے معمر ترین شخص محمد علی اصغر اب 31 جولائی 2015 ء کی نصف شب کو تیسری بار آزادی کا جشن منانے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے بھارت کی خونریز تقسیم دیکھی ہے۔ میں نے خود اپنے وطن میں مقید زندگی گزاری ہے لیکن اب قریب 70 برس بعد ہمارا آزادی کا خواب سچ ہونے جا رہا ہے‘‘۔
حسینہ اور مودی کے مابین معاہدہ
گزشتہ ماہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور وہاں پہنچنے پر مودی نے سب سے پہلے 1971ء کی جنگ میں مارے جانے والوں کی یادگار کو دیکھنے گئے تھے۔ اس موقع پر ’دو پڑوسی ممالک کے درمیان تاریخی سنگ میل‘ کی حیثیت رکھنے والا معاہدہ طے پایا اور اُس پر دستخط بھی ہو گئے۔ معاہدے کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحد کے تنازعے کو ختم کرتے ہوئے علاقے کے لین دین کا تاریخی معاملہ طے پایا اور اس طرح 150 بستیوں کے مستقبل کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھارت میں 100 سے زائد بنگلہ دیشی افراد کی بستیوں کا انتظام میں ڈھاکا حکومت کے حوالے کر دیا جائے جب کہ بنگلہ دیش میں بھارتی شہریوں کی 50 بستیوں کا انتظام نئی دہلی کو سونپ دیا جائے۔ اس طرح ان علاقوں کے رہنے والے افراد کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ ان دنوں میں سے جس ملک کی شہریت لینا چاہیں، لے لیں۔ اس طرح 40 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت بنگلہ دیش کے حوالے کر دے گا۔ س معاہدے سے دنیا کے پیچیدہ ترین اور 68 سال پرانے سرحدی تنازعے کو دور کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔
دونوں طرف کے باشندوں کو درپیش مسائل
اب تک دونوں ملکوں میں دونوں طرف کے شہریوں کے لیے قائم بستیوں کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی ۔ نہ تو ان علاقوں میں اسکول ہیں نہ ہی ہسپتال۔ پانی اور بجلی کی قلت اور اس کے علاوہ ان باشندوں پر اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ کا سفر کرنے اور وہاں کام کرنے پر پابندی بھی عائد تھی۔
بھارت میں بنگلہ دیشی بستیوں میں آباد بنگلہ دیشی باشندوں کے پاس کوئی شناختی کارڈ نہیں تھا، اس لیے وہ جعلی شناختی کارڈ کے استعمال پر مجبور تھے۔ وہ اپنی جھوٹی شناخت کے لیے بھارت میں اپنے کسی عزیز کا نام استعمال کرتے ہیں تاکہ انہیں روزگار مل سکے۔ اسی طرح یہ لوگ اپنے بچوں کو بھارتی اسکولوں میں داخل نہیں کرا سکتے تھے اور نہ ہی ان کا کسی بھارتی ہسپتال میں علاج ممکن ہوتا ہے۔
محمد علی اصغر کے پوتے کا نام زین العابدین ہے۔ اُس نے اسکول میں داخلے کے لیے اپنے والدین کا جعلی نام اور پتہ درج کرایا۔ علی کے بقول،’’ کسی انسان کے لیے اس سے بڑی بے عزتی نہیں ہو سکتی‘‘۔