گوشت آپ کو کتنا بیمار کرتا ہے؟
8 مئی 2022امریکہ اور آسٹریلیا میں ہر ایک فرد سالانہ اوسطاً 100 کلوگرام گوشت کھاتا ہے، یورپ میں یہ تقریباً 80 کلوگرام اور جرمنی میں 60 کلوگرام فی کس سالانہ ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ یہ بہت زیادہ ہے بلکہ یہ ماحول کے لیے بھی بہت زیادہ ہے۔ جانوروں کی تعداد کے حوالے سے بھی یہ بہت زیادہ ہے کیوں کہ اتنے زیادہ جانوروں کو پالنے کے لیے قدرتی ذرائع کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بات حقیقی مدعا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صنعتی ممالک میں کھائے جانے والے گوشت کی مقدار افراد کی اپنی صحت کے لیے بہت زیادہ ہے۔
گوشت سے کون سی بیماریاں ہوتی ہیں؟
والٹر وِلیٹ گزشتہ 40 برسوں سے غذائیت، بیماری اور صحت کے درمیان تعلق پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ بوسٹن میں 'ہارورڈ ٹی ایچ چان سکول آف پبلک ہیلتھ‘ میں ایپیڈیمولوجی اور نیوٹریشن کے پروفیسر ہیں۔ جب گوشت کھانے سے صحت کے اہم مسائل کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ دل کی بیماریوں اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا نام لیتے ہیں۔ سرخ گوشت یعنی جو گائے، سور، بھیڑ یا بکری سے حاصل ہوتا ہے، خاص طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
پروفیسر والٹر وِلیٹ کہتے ہیں، ''سرخ گوشت میں سیر شدہ چکنائی زیادہ ہوتی ہے، جو خون میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بڑھاتی ہے اور یہ دل کے دورے کی ایک یقینی وجہ ہے۔‘‘ اسی طرح سرخ گوشت میں تقریبا کوئی پولی ان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے خون میں چربی کی سطح کم ہوتی ہے اور اس طرح دل کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
سرخ گوشت ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ بڑھاتا ہے
پروفیسر والٹر وِلیٹ خود کچھ ایسے مطالعات میں شامل تھے، جنہوں نے گوشت اور ذیابیطس کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا، جسے ذیابیطس ٹائپ ٹو بھی کہا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق سرخ گوشت خاص طور پر ذیابیطس کی نشوونما کو فروغ دیتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں وِلیٹ اور ان کے ساتھیوں نے گرِل کیے جانے والے یا بھنے ہوئے گوشت اور ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان تعلق بھی پایا۔ یہ نتائج نہ صرف بیف سٹیک بلکہ چکن پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یورپ میں تقریباً 60 ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں اور اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے، ''صحت مند غذا اور کافی ورزش کے ذریعے ذیابیطس سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔‘‘
پروفیسر وِلیٹ کہتے ہیں، ''گوشت چھوڑنے اور اس کے بجائے چینی والے میٹھے مشروبات پینے سے صحت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘ کوئی بھی شخص، جو زیادہ فرنچ فرائز کھاتا اور کولا وغیرہ پیتا ہے، وہ سبزی خور ہونے کے باوجود ذیابیطس کا مریض بھی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح مختلف مطالعات میں گوشت کے استعمال کو مخصوص اقسام کے کینسر ہونے کے خطرے کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے۔
کیا گوشت چھوڑا جا سکتا ہے؟
بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ گوشت ایک صحت مند غذا کا حصہ ہے۔ درحقیقت یہ ان خطوں کے لیے درست ہے، جہاں سبزیاں اور پھل وغیرہ اگانا مشکل ہے اور جہاں لوگ اپنے جانوروں کے گوشت سے فراہم کردہ غذائی اجزاء پر انحصار کرتے ہیں۔
پروفیسر ولیٹ کہتے ہیں، ''یقیناً گوشت میں بھی قیمتی اجزاء ہوتے ہیں۔ چکن کا گوشت سرخ گوشت سے کم نقصان دہ ہے اور مچھلی بھی صحت مند غذا میں حصہ ڈال سکتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ''صحت مند رہنے کے لیے کسی کو بھی گوشت اور جانوروں کی مصنوعات کو مکمل طور پر ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
مناسب مقدار میں گوشت کھایا جا سکتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ سب سے اچھی چیز بنیادی طور پر پودوں پر مبنی غذا ہے۔ گری دار میوے، پھلیاں اور سویا کی مصنوعات پروٹین کے اچھے ذرائع ہیں۔ سبزیوں میں بہت زیادہ غذائی ریشے اور فائٹو کیمیکل بھی ہوتے ہیں، جو امراض قلب، ذیابیطس اور موٹاپے کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر پودوں پر مبنی خوراک بھی ماحولیاتی تحفظ اور جانوروں کی بہبود میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ اس لیے والٹر وِلیٹ کا خیال ہے کہ گوشت کھانے کے ماحولیاتی نتائج کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ''صحت مند سیارے کے بغیر صحت مند لوگ بھی نہیں ہوں گے۔‘‘
رپورٹ، جولیا ورجن
جرمن زبان سے ترجمہ، امتیاز احمد / ر ب