کیا یورپ میں کپڑوں کی صنعت ماحول دوست بن سکتی ہے؟
19 مارچ 2023جب جب لارس مورٹینسن نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ یورپی طرز زندگی ماحول کو کس طرح نقصان پہنچا رہی ہے، تو انہیں ادراک ہوا کے یورپی قانون ساز تین بڑے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ یہ تین حل طلب مسائل تھے یورپ کے گھر و خوراک، گاڑیاں اور ہوائی جہاز، جو تمام کسی نہ کسی طریقے سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا سبب بن رہے تھے۔
لیکن اس حوالے سے ایک چوتھا مسئلہ بھی تھا، جسے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ اور وہ تھا یورپ میں پہنے جانے والے ملبوسات کے ذریعے ماحول کو پہنچنے والا نقصان۔
مورٹینسن، جو یورپی یونین کی ماحولیاتی ایجنسی سے وابستہ سسٹین ایبلٹی کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ٹیکسٹائل کی صنعت کی تفصیلی ریگولیشن اب تک نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ اکثر ٹیکسٹائل یورپ سے باہر تیار کیے جاتے ہیں، ان کے باعث ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے زیادہ تر اثرات بھی وہیں نظر آتے ہیں۔
یورپی یونین کے عزائم
لیکن یورپی یونین اب فیشن کی صنعت کو ماحول دوست بنانے پر زور دے رہی ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے جو معیار مقرر کیے ہیں وہ دیگر دنیا میں کپڑے فروخت کرنے والوں کو تحفظ ماحول کے اعتبار سے بہتر بنانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین کا عزم ہے کہ 2030ء تک اس کی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والے تمام کپڑے ماحول دوست اور ریسائیکل ہونے کے قابل ہوں، جس کا مطلب ہے کہ اس سلسلے میں برانڈز کو ایک واضح حکمت عملی اپنانی ہو گی اور زیادہ کپڑے ایسے مٹیریئل سے تیار کرنے ہوں گے جسے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔
کپڑوں کی صنعت ماحول کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
لیکن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ میں یورپ سے پہنچنے والے استعمال شدہ کپڑوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے ماہرین کو خدشہ ہے ٹیکسٹائل انڈسٹری یورپی یونین کے اس ہدف سے صنعت مخالف سمت میں بڑھ رہی ہے۔
اس وقت دنیا بھر کے رہنماؤں نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس کے لیے ٹیکسٹائل کی صنعت کو 2030ء تک نقصان دہ گیسز کے اخراج میں 45 فیصد کمی لانی ہوگی۔ لیکن تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے میں کپڑا سازی کی صنعت سے ان گیسز کے اخراج میں 55 فیصد اضافہ ہوگا۔
کپڑوں کی صنعت میں فائبر کی تیاری کے لیے فوسل فیول کا استعمال بھی کیا جاتا ہے اور کپاس جیسی فصلوں کی کاشت کے لیے زمین اور پانی کے محدود وسائل بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اور تو اور 'ایچ اینڈ ایم' اور 'زارا' کی طرح کے نامور برینڈز کا بزنس ماڈل بڑے پیمانے پر سستے کپڑے تیار کرنے اور ہر ہفتے نئی طرز کے ملبوسات متعارف کرانے پر مبنی ہے۔
ان سب عوامل کا ماحول پر منفی اثر پڑتا ہے
صارفین اور سرمایہ کاروں کے دباؤ کی وجہ سے اب کچھ کمپنیوں نے ایسے ملبوسات متعارف کرائے ہیں، جو ان کے مطابق ماحول دوست یا 'سسٹین ایبل' ہیں اور ان میں سے کئی نے اپنے کاروبار کو ماحول دوست بنانے کے اہداف بھی مقرر کیے ہیں۔ مثلاﹰ 'ایچ اینڈ ایم' 2030ء تک اپنے کپڑوں کی تیاری کے دوران ماحول کے لیے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں 56 فیصد کمی اور 2040ء تک اس اخراج کو 'نیٹ زیرو' کی سطح تک لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ اہداف اپنی جگہ، مگر کپڑوں کی فروخت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحول کو پہنچنے والے نقصان میں کمی لانا مشکل نظر آتا ہے۔
'کپڑوں کا زیادہ استعمال ہی اصل مسئلہ ہے'
ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایلیٹ میٹزگر کا کہنا ہے کہ کپڑوں کا زیادہ استعمال ہی اصل مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، "بہت سی کمپنیاں یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ وہ مزید لوگوں کو اور کپڑے فروخت کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔"
آج کپڑوں کی ایک بڑی تعداد کو پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کپڑوں میں استعمال شدہ پرانے ملبوسات تو شامل ہوتے ہی ہیں لیکن اکثر نئے کپڑوں کو بھی ضائع کیا جاتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور تحفظ کے غیر روایتی چیلنجز
دوسری جانب ایلن میک آرتھر فاؤنڈیشن نامی فلاحی تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے مٹیریئل میں سے صرف 13 فیصد ریسائیکل ہوتا ہے جبکہ ان میں ایک فیصد سے بھی کم کو نئے کپڑوں کی تیاری کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
اس وقت یورپی یونین کے ممالک میں ضائع کیے جانے والے کپڑوں میں سے صرف ایک تہائی کو دوبارہ استعمال یا ریسائیکل کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے لارس مورٹینسن کا کہنا ہے کہ جب تک یورپ میں ریسائیکلنگ کے طریقہ کار کو مزید جدید نہیں بنایا جائے گا تب تک پھینکے جانے والے تمام کپڑوں کا دوبارہ استعمال مشکل ہو گا اور ان کو جلا کر ضائع ہی کرنا پڑے گا۔
م ا /ع ا (اجیت نرنجن)