کیا بھارت وادی کشمیر سے فوج کے انخلاء پر غور کر رہا ہے؟
20 فروری 2023بھارت کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کے منسوخ کیے جانے کے تقریباً ساڑھے تین برس بعد وادی کشمیر کے آبادی والے علاقوں میں تعینات بڑی تعداد میں بھارتی افواج کو وہاں سے واپس بلانے پر غور و فکر کیا جا رہا ہے۔
بھارت: جموں و کشمیر غزنوی فورس دہشت گرد تنظیم قرار
جب مودی حکومت نے دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کی تھی، تو کشمیر کی بیشتر گلیاں بھی فوج کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ کشمیر کے بیشتر آبادی والے علاقوں میں بھارتی فوج کو اب بھی جگہ جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انو رادھا کی کتاب کشمیر کے حالات سے پردہ اٹھاتی ہے
بھارتی میڈیا کے مطابق اب حکومت اندرونی علاقوں سے بھارتی فوج کو نکالنے پر غور کر رہی ہے اور اگر اسے منظور کر لیا گیا تو اس کی جگہ پر نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا جائے اور فوج کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھیج دیا جائے گا۔
لداخ جموں و کشمیر کے ساتھ کہیں زیادہ بہتر تھا، سونم وانگ چک
تجویز کیا ہے؟
بھارت کے معروف اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ کشمیر کے اندرونی علاقوں سے فوج کو واپس بلانے کی تجویز پر کافی دنوں سے بات چیت چل رہی ہے اور اب یہ مرکزی وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور مسلح افواج کی شمولیت کے ساتھ آخری مرحلے میں ہے۔
اس کے تحت یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ جن اندرونی علاقوں سے بھارتی فوج کو ہٹایا جائے گا وہاں نیم فوجی دستوں 'سی آر پی ایف' کو تعینات کیا جائے گا تاکہ امن و امان اور ''انسداد دہشت گردی'' جیسے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اخبار کے مطابق سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ یہ ''معاملہ اب بین وزارتی سطح پر سنجیدگی سے زیر غور ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ قابل عمل بھی ہے۔ ایک طرح سے فیصلہ ہو چکا ہے، تاہم نفاذ کب ہو گا، اس پر بات رکی ہوئی ہے۔ کیونکہ بالآخر یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا
ہے۔''
حکام کے مطابق جموں و کشمیر میں پانچ اگست سن 2019 سے پہلے کی مدت کے مقابلے میں صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور دہشت گردانہ تشدد کے واقعات اور سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں تقریباً 50 فیصد کی کمی آئی ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق پورے جموں و کشمیر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی اہلکار تعینات ہیں، جس میں سے تقریباً 80000سرحد پر تعینات ہیں اور باقی آبادی والے علاقوں میں پچاس ہزار کے قریب ہیں۔ تاہم آزاد اداروں کی اطلاعات کے مطابق کشمیر میں سات لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی فورسز تعینات ہیں۔
اس کے علاوہ بڑی تعداد میں نیم فوجی دستے، سرحدی فورسز بی ایس ایف اور پولیس کی مختلف ٹکڑیوں کے ساتھ یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچتی ہے۔
اس نئی تجویز کے پیچھے خیال یہ ہے کہ کشمیر میں معمول کی صورتحال کا صرف دعویٰ ہی نہ کیا جائے، بلکہ فوج کو واپس بلا کر اسے ظاہر بھی کیا جائے۔
وزارت داخلہ کے ایک اہل کار کا کہنا تھا، ''پانچ اگست 2019ء کے فیصلوں کے بعد سے وادی میں تشدد میں مسلسل کمی آئی ہے۔ پتھر بازی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور امن و امان کی صورتحال بڑی حد تک قابو میں ہے۔ تاہم اندرونی علاقوں میں بھارتی فوج کی ایک بڑی موجودگی صورت حال کے معمول پر ہونے کے دعووں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔''
ایک اور سرکاری اہلکار کے مطابق بات چیت کے دوران اس پر تبادلہ خیال ہوا کہ مثالی صورت حال یہ ہو گی کہ ''اندرونی علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری جموں و کشمیر پولیس کو سونپ دی جائے۔''
تاہم حکام کے مطابق ابھی پولیس فورس اس کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔ اس لیے خیال یہ ہے کہ فوج کی جگہ سینٹرل ریزر پولیس فورس (سی آر پی ایف) کو تعینات کیا جائے گا۔ عرف عام میں اسے پولیس کہا جاتا ہے تاہم بھارتی حکومت کے ماتحت ایک نیم فوجی فورسز کی طرح ہی ہے۔
سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ فوج کو مرحلہ وار واپس بلایا جائے۔ ''ہو سکتا ہے کہ فوج کو پہلے اننت ناگ اور کولگام جیسے دو اضلاع سے واپس بلا لیا جائے۔ جس کے بعد انسداد دہشت گردی کے محاذ پر صورتحال اور اس پر عوام کے رد عمل کا جائزہ لیا جائے گا۔''
ایک اور اہل کار کا کہنا تھا، ''یہ نتائج پر منحصر ہے کہ مزید واپسی کی طرف مزید اقدامات کیسے کیے جائیں گے۔ ایسا ہی سن 2000 کے وسط میں اس وقت کیا گیا تھا، جب سرحدی سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کو کشمیر کے اندرونی علاقوں سے واپس بلایا گیا تھا۔''
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور فوج کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ جہاں مودی حکومت کی پالیسی سب کچھ طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنے کی رہی ہے، وہیں فوج بھی کشمیر میں اپنے لیے ان مقامات پر نئے تعمیرات کر رہی ہے، جو آبادی والے علاقوں میں واقع ہیں۔