کانگو وائرس ، صوبہ بلوچستان میں صورتحال تشویشناک
10 اکتوبر 2013رواں ہفتے کے دوران کوئٹہ، ژوب اور قلعہ عبد اللہ میں کانگو وائرس کے مزید سات نئے کیس سامنے آنے کے بعد اس سال صوبے میں کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 70 تک پہنچ گئی ہے۔ اس جان لیوا مرض سے کوئٹہ کے ایک معروف ڈاکٹر سمیت 9 افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں اور طبی ماہرین نے مزید ہلاکتوں کاخدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
بلوچستان میں کانگووائرس کے پھیلنے کے یوں تو کئی وجوہات ہیں تاہم ماہرین صحت کا خیال ہے کہ کریمین۔ انگو ہموریجک فیور، جسے سی سی ایچ ایف بھی کہا جاتا ہے صوبے کے جنوب مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں اس لیے تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں اس وائرس کی تشخیص کے لیے حکومتی یا نجی سطح پر سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کوئٹہ کے معروف ڈاکٹر، سرجن نصیب اللہ زرکون کے مطابق مال مویشیوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے اس جان لیوا مرض کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا ’’ بلوچستان میں کانگو وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس مرض کا شکار صرف دیہی علاقے نہیں ہیں بلکہ اب شہروں میں بھی یہ بیماری تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ خاص طور پرکانگوسے متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران ان سے رابطے میں رہنے والے ڈاکٹر او طبی عملے کے ارکان کی جانوں کو بھی اس وائرس سے بہت خطرات لاحق ہے۔ عوام میں اس حوالےسے آگاہی نہیں ہے اور اس وائرس کی اسکریننگ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشخیص اور بروقت علاج میں مشکلات پیش آرہی ہیں‘‘۔
ڈاکٹر نصیب اللہ نے مزید بتایا کہ بیمار جانوروں کی کھال میں موجود کانگو وائرس متاثرہ جانور کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والے افراد میں آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ ایسے جانوروں سے دور رہیں یا ان کی اسکریننگ کرائی جائے۔
کانگو وائرس کے علامات بتائے ہوئے انہوں نے کہا ’’ کانگو سے متاثرہ شخص کو پہلے بخار ہوتا ہے اور پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم کے سفید خلیوں پر مشتمل جو مدافعتی نظام ہے وائرس اس پر حملہ کر دیتا ہے اور ہڈیوں کا جو گودا ہے وہ سپریس ہو جاتا ہے۔ منہ، ناک اور جسم کے دیگر حساس حصوں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اس مرض کے ابتدائی علامات ہیں‘‘۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کے وبائی امراض کی روک تھام کے شعبے کے سربرہ ڈاکٹر جلیل کامران کے مطابق بلوچستان میں کانگو وائرس کے زیادہ کیس رپورٹ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبلیوکو ٹیلی فون پر تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’جن علاقوں میں کانگو وائرس موجود ہے ان میں قلعہ عبداللہ، ژوب، پشین، قلعہ سیف اللہ لورالائی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے منصوبوں کی وجہ سے بھی مریض تشخیص کے لیے ڈاکٹروں سے رابطے کر رہے ہیں‘‘۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں کانگو وائرس کی تشخیص کا واحد مرکز کوئٹہ میں قائم ہے۔ طبی ماہرین کے بقول عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے لیے اندرون صوبہ اور افغانستان سے آنے والے مال مویشیوں کی بہتات اور اسکریننگ کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث کانگو کے مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔