چینی یورپی ہیمبرگ سمٹ اختتام پذیر
30 نومبر 2012امریکا میں صدارتی انتخابات اور چین میں قیادت کی تبدیلی کے بعد سے چین کے حوالے سے یہ پہلی بڑی کانفرنس تھی، جس میں چین اور یورپ کے سیاسی اور اقتصادی شعبوں کی 400 سے زیادہ شخصیات نے شرکت کی۔ ان شخصیات میں سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ شمٹ اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر بھی شامل تھے۔
گزشتہ تیس برسوں کے دوران چینی معیشت نے ہوش رُبا رفتار سے ترقی کی ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑے برآمدی ملک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ چین کی اس ترقی سے یورپ کو بھی بہت زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ دریں اثناء یورپی یونین کو چین کے سب سے بڑے تجارتی ساتھی کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ بالخصوص جرمنی اور چین کے اقتصادی روابط کامیابی کی ایک بے مثال داستان ہیں۔ جہاں 1972ء میں چین کو جرمن اداروں کی برآمدات کی مالیت محض 270 ملین ڈالر تھی، وہاں 2011ء کے وسط تک ان کی مالیت بڑھ کر تقریباً 65 ارب یورو تک جا پہنچی تھی۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ’ہیمبرگ سمٹ‘ کے نام سے منعقد ہونے والے اُس اجتماع کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے، جو تین روز تک جاری رہنے کے بعد جمعہ 30 نومبر کو اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ اس اجتماع کا اہتمام ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔
چین اور یورپ کے اتنے قریبی اقتصادی روابط کے باوجود دونوں جانب سے بد اعتمادی کی فضا بھی پائی جاتی ہے۔ یورپ کو گلہ ہے کہ چینی ادارے اپنی بھری جیبوں کے ساتھ شاپنگ پر نکلے ہوئے ہیں اور اُن کی نظریں درمیانے درجے کے یورپی کاروباری اور صنعتی اداروں پر ہیں۔ دوسری جانب چین کو اس بات پر مایوسی ہے کہ یورپ اپنے قرضوں کے بحران پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا ہے۔
اس سہ روزہ اجتماع میں اس طرح کے تمام مسائل پر کھل کر گفتگو کی گئی۔ چینی کرنسی کی قدر و قیمت کم رکھنے اور چین میں مقابلے بازی کے غیر مساوی حالات پر بھی بات کی گئی۔ اس اجتماع میں چین پر آزادانہ انتخابات کے لیے بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ ایک جمہوری کنٹرول کے ذریعے بد عنوانی کے مسئلے پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
چینی وزیر سائنس وانگ گانگ نے اپنی مختصر تقریر میں اختراع اور ’جدت پسندی‘ کی اصطلاح سب سے زیادہ استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ نئی چینی قیادت اَشیائے صرف کی خرید کے رجحان کو تیز تر کرنا چاہتی ہے اور خدمات کے شعبے کو زیادہ مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نئی قیادت متبادل توانائیوں میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں ہے اور بجلی سے چلنے والی کاروں کی تعداد کو، جو آج کل تیس ہزار سے بھی کم ہے، سن 2020ء تک بڑھا کر دو ملین تک لے جایا جائے گا۔
اس اجتماع میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ چین میں ماحول کو بہت زیادہ آلودہ کیا جا رہا ہے اور وہاں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
Danhong.Z/aa/as