چینی صدر کا دورہ یورپ، ’ وِن وِن صورتحال‘ کی کوشش
31 مارچ 2014پیر کے روز برسلز پہنچنے پر ان کا شاہی خاندان کی جانب سے استقبال کیا گیا جب کہ وہ بعد میں برسلز میں اس چڑیا گھر بھی گئے، جہاں بیجنگ سے لائے گئے دو پانڈے رکھے گئے ہیں۔
اس کے بعد وہ یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز پہنچے، جہاں انہوں نے اعلیٰ یورپی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں یوکرائن کا معاملے سرفہرست رہا، تاہم انسانی حقوق اور چین اور یورپی یونین کے درمیان تجارت کے فروغ سے متعلق بات چیت بھی ایجنڈے میں مرکزی نوعیت کے نکات تھے۔
بیلجیئم کے روزنامے لے زوئر میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں چینی صدر شی جِن پنگ نے تحریر کیا ہے، ’پتھر دریا کا راستہ نہیں روک سکتے اور دریا پوری شد و مد کے ساتھ سمندر تک پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی مسئلہ یا کوئی اختلاف چین اور یورپ کی باہمی دوستی اور تعاون کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔‘
اپنے اس تبصرے میں شی نے اس امید کا اظہار کیا کہ چین اور یورپ دونوں ہر محاذ پر باہمی تعاون سے ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ہوں گے اور دنیا کی اقتصادیات میں بہتر کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر امن کے قیام اور انسانی بنیادوں پر امداد کے شعبوں میں بھی مل کر کام کریں گے۔
چینی صدر نے اپنے اس پہلے دورہ یورپ کے آخری حصے میں پیر کے روز یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے، یورپی کمیشن کے سربراہ یوزے مانویل باروسو اور یورپی پارلیمان کے سربراہ مارٹن شُلس سے ملاقاتیں کیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کے بعد چینی صدر کسی پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برسلز میں چینی صدر کی مصروفیات، یورپی عہدیداروں سے ان کی ملاقاتوں اور ان میں طے پانے والے نکات سے متعلق کم ہی تفصیلات عام کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یورپی یونین، چین کی سب سے بڑی تجارتی پارٹنر ہے اور ان کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر یومیہ ہے۔ شی جن پِنگ نے گزشتہ ہفتے اپنے دورہء یورپ کا آغاز ہالینڈکے شہر دی ہیگ میں جوہری سلامتی کانفرنس میں شرکت سے کیا تھا، جہاں انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد وہ تین روزہ دورے پر فرانس گئے اور پھر جمعے کو جرمنی پہنچے۔ بیلجیئم ان کے دورہء یورپ کی آخری منزل ہے۔