چینی اے آئی 'ڈیپ سیک' کئی ممالک میں پابندی کا شکار
18 فروری 2025 کئی ممالک نے ڈیپ سیک کے صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے طریقے پر سوال اٹھایا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا سرورز میں محفوظ کیا جاتا ہے، جو چین میں موجود ہیں۔
سیئول کی پرائیویسی پروٹیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ڈیپ سیک کے صارفین کا ڈیٹا جمع کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ مکمل نہیں ہو جاتا، یہ ایپ اس ملک کے صارفین کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔
ڈیٹا پروٹیکشن ایجنسی کا کہنا ہے کہ چینی اے آئی کمپنی نے تسلیم کیا ہے کہ مقامی پرائیویسی قوانین پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا گیا۔ ایجنسی نے مزید کہا کہ ایپ کو مقامی پرائیویسی قوانین کے مطابق بنانے میں کافی وقت لگے گا۔
ایپ کو گزشتہ ہفتے ایپ اسٹورز سے ہٹا دیا گیا تھا اور یہ اب تک دستیاب نہیں ہے۔ جن صارفین نے پہلے ہی ایپ ڈاؤن لوڈ کر لی ہے، وہ اب بھی یہ اے آئی چیٹ بوٹ استعمال کر سکتے ہیں۔ سیئول کی ڈیٹا پروٹیکشن ایجنسی نے عوام کو حتمی نتائج آنے تک سروس احتیاط سے استعمال کرنے کی سختی سے ہدایت دی ہے۔
یوم ہیونگ یول، جو سونچون ہیانگ یونیورسٹی میں ڈیٹا سکیورٹی کے پروفیسر ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ کمپنی نے جنوبی کوریا کے صارفین کے لیے ابھی تک کوئی ایسی پرائیویسی پالیسی نہیں بنائی جو خاص طور پر ان کے لیے ڈیزائن کی گئی ہو۔ البتہ اس نے یورپی یونین اور کچھ دوسرے ممالک کے لیے ایک پرائیویسی پالیسی جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ان ممالک کے مقامی قوانین کے مطابق عمل کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "ڈیپ سیک کو کوریا کے لیے ایک مخصوص پرائیویسی پالیسی مرتب کرنی ہوگی۔"
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گواو جیاؤکُن نے متعلقہ ممالک پر زور دیا کہ وہ سکیورٹی کے تصور کو حد سے زیادہ بڑھانے یا تجارتی اور ٹیکنالوجی کے مسائل کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کریں۔
اس ماہ، جنوبی کوریا کے کئی حکومتی اداروں اور پولیس نے کہا کہ انہوں نے اپنے کمپیوٹروں پر ڈیپ سیک تک رسائی بلاک کر دی ہے۔
اسی طرح، اٹلی نے بھی ڈیپ سیک کے R1 ماڈل کے متعلق تحقیقات شروع کر دی ہیں اور اسے اٹلی کے صارفین کے ڈیٹا کو اس میں پراسیس کرنے سے روک دیا ہے۔
آسٹریلیا نے سکیورٹی ایجنسیوں کے مشورے پر ڈیپ سیک کے استعمال کو تمام سرکاری آلات پر ممنوع قرار دے دیا ہے۔
امریکی قانون سازوں نے بھی ایک بل پیش کیا ہے جس کے ذریعے ڈیپ سیک کو سرکاری آلات پر استعمال کرنے پر پابندی لگانے کی تجویز دی گئی ہے، کیونکہ صارفین کے ڈیٹا اس پر غیر محفوظ تصور کیا جا رہا ہے۔
ان پابندیوں کے جواب میں، چینی حکومت نے کہا ہے، "بیجنگ نے کبھی بھی کسی کمپنی یا فرد سے غیر قانونی طور پر ڈیٹا جمع کرنے یا محفوظ کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔"
ش خ/ ر ب (اے ایف پی)