چیمپئنز ٹرافی، نزلہ صرف کھلاڑیوں پر ہی کیوں
17 جون 2013دو ہزار سات کے ویسٹ انڈیز عالمی کپ کے بعد پاکستانی ٹیم کے کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ سے باہر ہونے کا یہ پہلا موقع ہے۔ سابق چیف سلیکٹرعبدالقادر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناکام کھلاڑیوں کے ساتھ دوسروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ مہنگے کوچز رکھے گئے ہیں مگر کھلاڑی پھر بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔’’ سلیکٹرز سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے پانچ پانچ اوپنرز کس طرح بھیجے اور ایک ون ڈے ٹورنامنٹ میں ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ ٹیم میں کوئی ہٹر ہی نہیں تھا‘‘۔
عبدالقادر کہتے ہیں ناصر جمشید جیسے کھلاڑیوں نے خود غرضی کا مظاہرہ کیا اور وہ صرف ٹیم میں جگہ کے لیے کھیلتے رہے ایسے کھلاڑیوں کو سزا ملنی چاہیے۔ عبدالقادر کے بقول پاکستانی کرکٹرز کی توجہ کھیل سے زیادہ اشتہاروں میں کام کرنے پر رہی ہے۔ اس پر پابندی لگا دی جائے۔
اس ٹورنامنٹ نے عرصہ دراز سے پاکستانی ٹیم پر بوجھ بننے والے کئی کرکٹرز کو بے نقاب کر دیا۔ ٹورنامنٹ میں محمد حفیظ اڑتیس، شعیب ملک پچیس، کامران اکمل تیس اورعمران فرحت چار رنز بنا سکے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شعیب ملک کی عالمی رینکنگ اس وقت 76، عمران فرحت کی 77 اور کامران کی79 ہے جو کینیا کے کولن اوبایو، زمبابوے کے ووزی سبانڈا اور آئر لینڈ کے گیری ولسن جیسے غیر معروف کھلاڑیوں سے بھی گئی گزری ہے۔
عبدالقادر کہتے ہیں کہ حنیف، ظہیر، انضمام اور میانداد کے دیس میں بیٹنگ کا فن اب بھی زندہ ہے بس پرکھنے والی آنکھ چاہیے۔’’ احمد شہزاد میں سچن کی جھلک ہے اور بھی بیٹسمین ہیں مگر منصوبہ بندی کا فقدان ہے‘‘۔
کھیلوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی اور روزنامہ ایکسپریس کے اسپورٹس ایڈیٹر زاہد مقصود کہتے ہیں کہ صرف کھلاڑیوں کو اس شکست پر قصور وار ٹھہرانا جائز نہیں۔ مقصود کے مطابق جب ٹیم بھارت سے جیت کر آئی تھی تو ذکا اشرف ایئرپورٹ پر ٹرافی کے ساتھ باہر آئے تھے چیئرمین جب سلیکشن میں مداخلت کرتا ہے اور جیت کا کریڈٹ لیتا ہے تو ہار سے بھی وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔
سابق کرکٹرز کپتان مصباح الحق اور انکے نائب محمد حفیظ کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر عبدالقادر کہتے ہیں مصباح کو کپتان برقرار رہنا چاہیے۔’’ وہ واحد کھلاڑی جو جان مارتا ہے نئی ٹیم دے کر مصباح کو با اختیار کپتان بنایا جائے۔ حفیظ کو اب کم ازکم دوسال باہر کر دینا چاہیے اور کہہ دیا جائے کہ جا کر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلو اور فارم بحال کرو‘‘۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ذکاء اشرف کی معطّلی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ گزشتہ تین ہفتوں سے چیئرمین کے بغیر ہے۔ عدالت نے آئی سی سی کے رواں ہفتے ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی شرکت یقینی بنانے کے لیے بین الصوبائی رابطے کی وزارت کو قائم مقام چیئر مین مقرر کرنے کی ہداییت کی تھی تاہم پی سی بی کے مروجہ آئین کے مطابق بورڈ کے قائم مقام چیئرمین کا عہدہ پی سی بی گورننگ بورڈ کے کسی رکن کو ہی سونپا جا سکتا ہے اور گورننگ بورڈ میں موجود اراکین کا سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی طرف جھکاؤ دیکھتے ہوئے نواز حکومت نئے چیئرمین کے تقرر میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ اس بابت زاہد مقصود کہتے ہیں کہ فی الحال کرکٹ حکومت کی ترجیحات میں کہیں نیچے ہے اور وہ دیگر ضروری امور نمٹانے کے بعد اس جانب توجہ کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے اس عہدے کے لیے وزیر اعظم کو جو تین نام بھجوائے ہیں ان میں سابق کپتان ماجد خان اور سی بی آر کے سابق سربراہ ممتاز رضوی بھی شامل ہیں۔
ماہرین کی رائے ہے کہ قربانی کا بکرا صرف کھلاڑیوں کو نہیں بننا چاہیے بلکہ حکام کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: عدنان اسحاق