چلی کے صدارتی انتخابات، مشیل باچلیٹ بھاری اکثریت سے کامیاب
16 دسمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سنتیاگو سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ جزوی نتائج کے مطابق باچلیٹ نے باسٹھ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق نوے فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد باچلیٹ کی حریف ایولین ماتھائی کو اڑتیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر باسٹھ سالہ باچلیٹ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں معمولی فرق سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں۔
صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کامیابی کے بعد باچلیٹ نے سنتیاگو میں اپنے بچوں اور والدہ کے ساتھ خوشیاں منائیں اور اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’چلی! بالآخر وقت آ گیا ہے کہ اب تبدیلیاں کی جائیں۔‘‘ وہ باقاعدہ طور پر گیارہ مارچ کو صدارت کے منصب پر فائز ہوں گی اور 2018ء تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔
باچلیٹ نے خوشی سے چور اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیت کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے فیصلہ کر دیا ہے کہ چلی کو تعلیم، اور ٹیکس کے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نئی حکومت ایک نیا اور زیادہ ماڈرن دستور اختیار کرے گی۔
مشیل باچِلیٹ قبل ازیں 2006ء میں اپنے ملک کی صدر منتخب کی گئی تھیں تاہم 2010ء میں اپنی مدت صدارت کے خاتمے پر وہ ملکی قوانین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئی تھیں۔ چلی میں 1973ء تا 1990ء کی فوجی حکومت کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی سیاستدان نے دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دو خواتین کا مقابلہ ہوا ہو۔
سترہ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں عوام میں مقبول اس خاتون سیاستدان کو 47 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ ایولین ماتھائی صرف پچیس فیصد ووٹروں کی حمایت کر سکی تھیں۔ اس مرتبہ نو منتخب صدر باچلیٹ کی سیاسی جماعت سوشلسٹ پارٹی نے کرسچن ڈیموکریٹس اور کمیونسٹس کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ انتخابی نعرے میں باچلیٹ نے کہا تھا کہ وہ ملک میں غریب اور امیر طبقوں کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کر دیں گی۔
اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران باچلیٹ نے پینشن نظام اور صحت عامہ کے شعبے کے علاوہ سماجی سطح پر کامیاب اصلاحات کی تھیں۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے بالخصوص ملک کی ورکنگ کلاس اور بزرگ طبقے کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے تھے۔ ان کے دور صدارت میں ملکی اقتصادیات کی صورتحال بھی بہتر ہوئی تھی۔