جرمنی میں دیسی کمیونٹی کے لیے نئے روابط بنانے اور قائم رکھنے میں ایک بڑا کردار سوشل میڈیا خاص کر فیس بک گروپس کا ہے۔ ان گروپس پر جہاں بہت سے نیک نیت لوگ رہنمائی کرتے ہیں وہیں ایک اور منفی رویہ بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کسی کے سوال پوچھنے اور اپنی پریشانی اور مسئلہ بیان کرنے پر چند لوگ خود پسندی کے سمندر میں غوطے لگاتے ہوئے دوسرے کی تکلیف کو بالائے طاق رکھ کر کے ناصرف بیان کرنے والے کا مذاق اڑاتے اور تذلیل کرتے ہیں بلکہ ہر موقع پر اپنے آپ کو ہر کردار میں دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کو کوشش کرتے ہیں۔ اس رویے کو آج کل کی اصطلاح میں پک می سنڈروم کہتے ہیں۔
جرمنی میں جہاں دیسی کمیونٹی میں بہت سے مددگار بھی ہیں وہیں یہ پک می سنڈروم تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہ بہت تشویش کا باعث ہے۔ یہ خود غرضی کی انتہا که انسان دوسرے کی مشکل کا سن کر متاثرہ فرد کو یہ سمجھانے پر بضد رہے کہ ضرور اس ہی کا کوئی قصور ہو گا۔ خود کو باقی سب سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں کچھ لوگ اور خاص کر خواتین مردوں سے توجہ اور داد ضرور وصول کر لیتی ہیں۔
حقوق نسواں کی ایک لمبی جدوجہد کے بعد آج خواتین کو اس نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں ایک دائیں بازو کی شدت پسندی کی سوچ جنم لے رہی ہے۔ اس سوچ کے مطابق ہر شخص جو حقوق نسواں کی بات کرتا ہے یا وہ عورت جو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی حمایت کرتی ہے وہ ایک گمراہ اور گنہگار ہے اور پک می سنڈروم رکھنے والے یہ تمام خواتین و حضرات مذہب کے کسی بہت اعلی درجے پر فائز ہیں۔ حقوق نسواں اور فیمنزم کی بات کو خود ساختہ مذہبی ریفرنس دے کر کسی نہ کسی طرح کی حقارت آمیز گالی بنا دیا جاتا ہے۔
دیسی فیس بک گروپس پر کئی مثالیں عام پائی جاتی ہیں، جہاں کوئی عورت اگر ہمت کر کے اپنے ساتھ ہونے والے جسمانی یا ذہنی تشدد کی بات کرتی ہے اور مدد مانگتی ہے تو جہاں بہت سے افراد اسے اپنے حق کے لیے سٹینڈ لینے پر آماده کرتے ہوئے پولیس اور مددگار اداروں کی راہ دکھاتے ہیں وہیں دوسری جانب یہ چند منفی لوگ مل کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں، پوسٹ کرنے والے کو فوری طور پر جھوٹا اور دھوکے باز قرار دیتے ہیں۔ یہ جملہ بہت عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ’’یورپ آ کر ان سب کو حق یاد آ جاتے ہیں اور یہ سب خواتین صرف ڈرامہ کرتی ہیں۔‘‘
ایسی پوسٹ پر کچھ خواتین کا یہ کمنٹ کرنا کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ وہ ایک بہت فرمانبردار اور نیک بیوی ہیں، ناصرف پڑھنے والے حضرات کو یہ اشارہ دیتا ہے بلکہ کہ ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے بعد بھی ان کی پشت پناہی کے لیے لوگ ہیں بلکہ ملزم کی کو بھی یہ شے دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ دے یا کر لے یہاں صرف وکٹم کو ہی بلیم کیا جائے گا۔ ان کے منطق کے مطابق جس کو مار پڑ رہی ہے اس میں بھی اسی کا قصور ہے اور اگر مالی ناانصافی سے دوچار ہے تو وہ بھی اس کا اپنا لالچ اور پیسے جمع کرنے کی ہوس ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے خفیہ دوسری شادی کر رکھی ہے، جو کہ جرمنی کے قانون کے مطابق ایک جرم ہے تو اسے بھی ان چند لوگوں کی مکمل حمایت فراہم رہتی ہے۔
کچھ انتہائی کیسز میں بات یہاں بھی نہیں ختم ہوتی بلکہ چند لوگ دوسروں کی ذاتی مشکلات کو اپنے فیس بک اور انسٹاگرام کے پیجز پر کنٹینٹ کے نام پر استعمال کرتے ہیں یہ ایک بہت خطرناک ٹرینڈ ہے، جو کہ بہت سے گھروں میں پریشانی کا باعث بن رہا ہے اور بہت سی مصیبت زدہ خواتین کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ آج تک کسی عورت نے جھوٹ نہیں بولا، دھوکہ نہیں دیا یا اس کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی 100 فیصد مشکلات مکمل سچائی پر مبنی ہوتی ہیں مگر بغیر کسی تحقیق کے اور تفصیلات جانے فوری طور پر یقین کر لینا کہ یہ ضرور جھوٹ ہی ہو گا، ٹھیک طریقہ نہیں ہے۔آخر کوئی تو وجہ ہے جو جرمن حکومت کو عوامی مقامات پر اردو میں بھی گھریلو تشدد سے بچنے کے لیے معلومات فراہم کرنی پڑتی ہیں۔
اسی طرح کچھ مرد حضرات کسی کی نفسیاتی مشکلات یا ڈپریشن حتی کہ خودکشی کو بھی فورا دین سے دوری اور ایمان کی ناپختگی قرار دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سب سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دین کا غلط استعمال کر کے عام انسان کی مشکلات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اور اس کی تضحیک کرنا ایک منفی شدت پسندانہ سوچ ہے اور یہ رویہ ہمیں کئی دہائیاں پیچھے لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح فیس بک گروپس کے ایڈمنز کو فعال طور پر پک می سنڈروم اور اس منفی رویے کی نشاندہی اور فوری خاتمے کے لیے اقدام کرنے کی ضرورت ہے خاص کر جن گروپس پر مرد و خواتین دونوں موجود ہیں وہاں یہ رویہ انتہائی زہریلا ماحول پیدا کر چکا ہے جو عدم اعتماد کی فضا پیدا کرتا ہے اور لوگ پریشانی میں بھی کسی سے مدد مانگنے میں کتراتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔