پندرہ برس بعد ایشیائی سکواش کا تاج پاکستان کے سر
6 مئی 2013اتوار کو مصحف علی میر سکواش کمپلیکس اسلام آباد میں 17ویں ایشیائی سکواش چیمپئن شپ کے فائنل کھیلا گیا۔ عامر اطلس خان کا ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’آج میری محنت رنگ لا رہی ہے اور میری کامیابی سے ملک میں سکواش کو پھر عروج ملے گا۔‘‘
عامر اطلس خان کا تعلق صوبہ پختونخواہ کے علاقے نواں کلی سے ہے اور ان کے چچا جان شیر خان ماضی میں سکواش کورٹ پر کامیابیوں کے ان منٹ نقوش چھوڑ چکے ہیں۔
عامر اطلس خان کے لیے گزشتہ تین برس اتار چڑھاو سے بھر پور رہے، انہوں نے 2010ء میں ایشین گیمز میں طلائی کا تمغہ جیتا تھا مگر ضابطہ اخلاق توڑنے پر انہیں ایک سالہ پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا، تاہم ایشین سکواش چیمپئن شپ میں پاکستان سکواش فیڈریشن نے ان فٹ عامر کی شرکت یقینی بنانے کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان تاخیر سے کیا۔
عامر اطلس خان کے کزن فرحان محبوب بھی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم سیمی فائنل میں بقول فرحان کے خراب امپائرنگ ان کی شکست کی وجہ بن گئی۔
پاکستان نے طویل عرصے کے بعد کسی سکواش کے بین الاقوامی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تھا، جس میں بھارت کے انکار کے بعد بھی ملائیشیا، سری لنکا، کویت اور ہانگ کانگ سمیت آٹھ ملکوں کے کھلاڑی شریک ہوئے۔
زرک جہاں خان سن 1998ء میں ایشین چیمپئن بننے والے آخری پاکستانی کھلاڑی تھے ان کے علاوہ جہانگیر خان میر زمان گل اور قمر زمان بھی دو دو بار یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے1975ء کے برٹش اوپن چیمپئن قمر زمان نے پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو حوصلہ افزا قرار دیا۔ قمر زمان نے بتایا کہ اس ٹورنامنٹ سے پہلے کوئی پاکستانی کھلاڑی دنیا کے چوٹی کے پچاس کھلاڑیوں میں بھی شامل نہ تھا مگر یہ جیت بڑی اہم ہے اور پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی اس ایونٹ میں تسلی بخش رہی۔
قمر زمان کے مطابق اس ٹورنامنٹ کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی سکواش کی واپسی کے دروازے کھل گئے ہیں، جس سے پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی مستقبل میں مزید کامیابیاں سمیٹنے میں مدد ملے گی۔
اب پاکستانی کھلاڑیوں کی اگلی آزمائش جون میں فرانس میں ہونے والی ورلڈ ٹیم چیمپئن شپ میں ہوگی۔
رپورٹ: طارق سعید، اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد