پنجابی کھوج گڑھ: پنجابی زبان کا بڑا پرائیویٹ ریسرچ سینٹر
27 جولائی 2025للیانی کی اسی سرزمین پر، جہاں کبھی سکھ حکومت کی تاریخ کا آخری باب لکھا گیا تھا، گزشتہ 24 برسوں سے 'پنجابی کھوج گڑھ‘ کے نام سے ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔ یہ ادارہ پنجابی زبان، ثقافت اور شعور کی اس ٹوٹی ہوئی کڑی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو 1846ء میں وقت کی دھول میں گم ہو گئی تھی۔
پنجابی کھوج گڑھ کوئی سرکاری ریسرچ سنٹر یا یونیورسٹی سے منسلک تحقیقی ادارہ نہیں، بلکہ یہ ایک شخص کی ذاتی دلچسپی اور کوشش کا نتیجہ ہے، اور وہ شخصیت ہیں شاعر، مؤرخ، محقق، اور پنجابی ثقافت کے لیے وقف ایک ہمہ جہت شخصیت اقبال قیصر۔
پرائمری اسکول ٹیچر کا خواب
قصور میں جنم لینے والے اقبال قیصر کے خاندان نے فیروز پور سے ہجرت کی تھی جہاں ان کا پہلا پڑاؤ گارڈن ٹاؤن کے ایک احاطے 'لالہ غنیمت رائے‘ میں تھا۔ یہیں اقبال قیصر کے دل میں ماں بولی کا ابتدائی بیج بویا گیا جو بعد میں تقریباً درجن بھر کتابوں اور کھوج گڑھ کی صورت میں برگ و بار لایا۔
سوشل میڈیا نے مادری زبانوں سے ہمارا تعلق مضبوط کیا یا کمزور؟
پنجابی بولتے ہوئے ’شرمندگی محسوس ہوتی‘ ہے!
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”والد صاحب کسی کے ہاں ڈرائیور تھے، جھگیاں ڈال کر رہائش کا عارضی بندوبست کیا گیا تھا۔ تب میری والدہ مجھے مختلف قصے کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ مولوی عبدالستار کا پنجابی زبان میں لکھا ہوا قصہ 'یوسف زلیخا‘ بھی انہی دنوں سنا۔ یہ ماں بولی سے جذباتی تعلق کی بنیاد تھی جس کے اثر سے میں آج تک باہر نہ آ سکا۔"
میٹرک کے دوران اقبال قیصر کی پہلی کتاب 'دو پتَر اناراں دے‘ شائع ہوئی جس میںپنجاب کے لوک گیت جمع کیے گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں، ”بعد میں محمد آصف خاں اور شفقت تنویر مرزا کی صحبت نے بہت انسپائر کیا۔ یہ لوگ پسے ہوئے طبقات کی بہتری اور اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے ہمہ تن وقف تھے۔"
اقبال قیصر پنجابی زبان کے شاہ مکھی سکرپٹ میں شائع ہونے والے پہلے اخبار 'سجن‘ کا خصوصی حوالہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ”1989ء میں نکلنے والا یہ اخبار تقریباً 20 ماہ بعد بند ہو گیا لیکن بہت غیر معمولی تجربہ تھا۔ سرمایہ تھا نہیں، بس لوگ شوق سے کام کر رہے تھے… میں سکول سے سیدھا سجن کے دفتر آتا۔ رات بارہ ایک بجے تک کام کرتا۔ کھانے تک کے پیسے نہیں ہوتے مگر سب لگے رہتے۔ تب بہت اچھے سے سمجھ میں آیا کہ ایک مقصد کے لیے بے سر و سامانی میں لوگ کیسے دن رات محنت کرتے ہیں۔"
پاکستان میں سکھوں کے تاریخی مقامات اور کھوج گڑھ کی بنیاد
اقبال قیصر کا ایک نمایاں کارنامہ 1998ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب 'ہسٹوریکل سکھ شرائنز ان پاکستان‘ ہے۔ پاکستان میں سکھ یادگاروں کی اہم دستاویز سمجھی جانے والی اس کتاب کو انڈیا، کینیڈا اور امریکہ میں خوب پذیرائی ملی۔
اقبال قیصر کہتے ہیں، ”مشیگن میں کچھ دوستوں نے بلایا۔ میں چھٹی کی درخواست دے کر چلا گیا۔ واپس آیا تو پتہ چلا ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہوں۔ کتاب سے اچھی آمدن ہوئی تھی، ان پیسوں سے پونے سات ایکڑ زمین خرید کر پنجابی کھوج گڑھ کی بنیاد رکھی۔"
لاہور میں رہنے کے باوجود انہوں نے کھوج گڑھ کے لیے للیانی کا انتخاب کیوں کیا؟ ان کے مطابق، ”1990ء میں بلھے شاہ کے میلے سے نکل کر ہم کچھ دوست ایم بی کنال کے ساتھ ساتھ چلتے آئے اور ایک جگہ ناؤ نوش کی محفل جما لی۔ ہم وہاں اینگلو پنجاب وار، للیانی اور قصور کی تاریخ پر بحث کرتے رہے۔ تب مجھے خیال آیا کہ موقع ملا تو یہاں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جو پنجاب کو اُس تاریخی دھارے سے جوڑ سکے جسے پہلے 1846ء میں انگریزوں اور پھر 1978ء میں ضیاء الحق نے منقطع کرنے کی کوشش کی۔"
خیال رہے سابق پاکستانی فوجی سربراہ اور صدر ضیاء الحق کے دور میں للیانی کا نام تبدیل کر کے مصطفٰی آباد رکھ دیا گیا تھا۔
اقبال قیصر کہتے ہیں، ”کھوج گڑھ محض ایک علمی ادارہ نہیں، یہ پنجاب کی کثیرالثقافتی وراثت کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ یہاں بابا فرید اور بلھے شاہ، بھگت سنگھ اور وارث شاہ، گُر مکھی اور شاہ مکھی، سب کو یکساں محبت سے یاد کیا جاتا ہے۔"
پنجابی کھوج گڑھ میں وقتاً فوقتاً بساکھی میلے، مشاعرے، تھیئٹر، اور علمی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہتی ہیں جن میں نہ صرف محققین اور طالب علم بلکہ مقامی آبادی بھی شریک ہوتی ہے۔
پنجابی فلموں کے نایاب پوسٹرز کا منفرد میوزیم
2005 میں اقبال قیصر نے کھوج گڑھ میں ایک منفرد پکچوریل میوزیم قائم کیا جہاں پنجابی فلموں کے نایاب پوسٹرز اور تصویریں محفوظ کی گئیں۔
اس حوالے سے وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”میوزیم میں 35 سے زائد ایسی فلموں کے پوسٹرز موجود ہیں جو تقسیم سے پہلے بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاؤہ 1947 کے بعد بننے والی تقریباً 300 فلموں کے پوسٹرز بھی یہاں موجود ہیں۔ میں نے یہ خزانہ پرانے سینما گھروں، فلم ڈسٹری بیوٹرز اور چند شائقین سے حاصل کیا۔ پنجابی فلموں کا ہماری تاریخ میں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ اگر ہم نہ سنبھالتے تو خدشہ تھا یہ سب ضائع ہو جاتا۔"
وہ ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہیں، ”پنجابی زبان میں بننے والی پہلی بولتی فلم 'مرزا صاحباں‘ کی ہیروئن خورشید بانو تھیں۔ کلکتہ میں بننے والی پہلی پنجابی فلم 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی خواتین نور جہاں اور ان کی کزن حیدر باندی تھیں۔ یہ تینوں خواتین قصور سے تھیں۔ آپ بتائیں پنجابی فلموں کے پکچوریل میوزیم کے لیے قصور سے زیادہ مناسب جگہ کوئی اور ہو سکتی تھی؟ "
جین مندروں کی تاریخ اور کتابیں ڈیجیٹل کرنے کا منصوبہ
2017 میں اقبال قیصر کی کتاب 'اجڑے دراں دے درشن‘ سامنے آئی جس میں جین مندروں کی تاریخ فکشن کے انداز میں محفوظ کی گئی۔ وہ کہتے ہیں، ”میں نے ملک کے مختلف حصوں کی خاک چھانی اور جین مت کے 25 مندر تلاش کیے۔ ان میں سے زیادہ تر پنجاب اور سندھ میں ہیں، جبکہ چند ایک خیبر پختونخوا میں بھی موجود ہیں۔ اتنے بڑے تاریخی ورثے کے بارے میں ڈھنگ کی کوئی کتاب نہ تھی، مجھے لگا اب یہ کام نہ ہوا تو بہت دیر ہو جائے گی۔"
اس کے علاؤہ اقبال قیصر کی نمایاں کتابوں میں دُھندلا چانن، انگ تریڑاں پئیاں، راتاں ہوئیاں وادیاں، للیانی دی تریخ، فلم تے لاہور، انسائیکلوپیڈیا آف پنجابی فلم شامل ہیں۔
اقبال قیصر کھوج گڑھ کی لائبریری کو ڈیجیٹلائز کرنا چاہتے ہیں تاکہ کتابیں اور تاریخی مواد آن لائن مفت دستیاب ہو سکے۔ ان کے بقول، ”میری خواہش ہے یہ ذخیرہ دنیا بھر کے پنجابی نوجوانوں تک پہنچے، خاص طور پر ان تک جو گُر مکھی یا شاہ مکھی پڑھنا نہیں جانتے مگر اپنی ثقافت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔"
پنجابی زبان کے حوالے سے ریاستی رویہ کیسے بہتر ہوا ہے؟
اقبال قیصر سمجھتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں آج مقامی زبانوں کو پہلے سے زیادہ جگہ مل رہی ہے۔
وہ ایک واقعہ سناتے ہیں، 1980 کی دہائی میں ہم چار پانچ دوست مادری زبانوں کے عالمی دن پر وائے ایم سی ہال میں اکٹھے ہوئے۔ ایک فوٹوگرافر آیا، تصویر اتاری اور چلا گیا۔ اگلے دن وہ تصویر نوائے وقت میں چھپی ہوئی تھی جس کے ساتھ کیپشن میں ہمیں 'وطن کے غدار‘ لکھا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ”آج مادری زبانوں کے دن پر ہزاروں افراد اکٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی انہیں غدار نہیں کہتا، حکومتیں اور ریاستی ادارے خود مادری زبانوں کے میلے اور کانفرنسیں کرواتے ہیں۔"
ان کے خیال میں پنجابی زبان کے حوالے سے صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے، ”پہلے پنجابی زبان کی کتاب شائع کروانے کے لیے کوئی پبلشر تیار نہیں ہوتا تھا، اب کئی ایسے ادارے ہیں جو محض پنجابی کی کتابیں شائع کر رہے ہیں، اسمبلی میں آپ پنجابی زبان میں تقریر کر سکتے ہیں۔"
ان کے بقول، ”ہمارے پاس بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔ 2004 میں حکومت نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج، آرٹ اینڈ کلچر کا ادارہ قائم کیا، اگر آپ تاریخی تناظر میں ریاستی رویہ دیکھیں تو یہ غیر معمولی لگتا ہے۔"
وہ مقامی زبانوں کی پرموشن میں سوشل میڈیا کے کردار کو سراہتے ہیں، ”ہر علاقے کا اپنا مواد تخلیق ہو رہا ہے، مختلف لب و لہجے گلوب میں مقبول ہو رہے ہیں۔ موسیقی نے دونوں طرف کے پنجابیوں کو ایسے جوڑا کہ سرحد کی لکیر غیر موثر نظر آتی ہے۔ ہم کبھی مایوس نہیں ہوئے، اب تو صورتحال کافی بہتر نظر آتی ہے۔"