پاکستان یا تھائی لینڈ! ڈیوس کپ میں آخری قہقہہ کون لگائے گا ؟
8 ستمبر 2014شہرہ آفاق اعصام الحق کے علاوہ پاکستان کی جیت کا دار و مدار چونتیس سالہ عقیل خان کی کارکردگی پر ہوگا۔ عقیل خان کہتے ہیں کہ ڈیوس کپ میں ہمیشہ میزبان ملک کو ہوم گراؤنڈ اور اپنی آب و ہوا کا فائدہ ہوتا ہے،’’مگر ہمیں اس ریت کو توڑنا ہوگا۔ ہم نے جس طرح سیمی فائنل میں فلپائن کو اس کی سر زمین پر ہرایا اس کے بعد تھائی لینڈ کے خلاف بھی کامیابی پاکستان کے قدم چومے گی۔‘‘
عقیل خان ڈیوس کپ میں ریکارڈ 41 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کندھا زخمی ہونے کے بعد ان کی فائنل کے لیے تیاری تسلی بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی سے بھی ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ عقیل کے بقول وہ اور اعصمام الحق سولہ برس سے ڈیوس کپ کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم تھائی لینڈ کے کھلاڑیوں کے خلاف بھی ماضی میں کھیل چکے ہیں۔ اس لیے فائنل کا کوئی اضافی دباؤ محسوس نہیں کر رہے۔‘‘
پاکستان 1948ء سے ڈیوس کپ مقابلوں میں شریک رہا ہے اور دو ہزار پانچ میں اعصام الحق اور عقیل خان کی ہی شاندار کارکردگی اسے ورلڈ گروپ تک لے گئی تھی۔
ڈیوس کپ 2014ء کا تاریخ ساز پہلو یہ ہے کہ اس میں ٹینس کی مشہور افتخار فیملی کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ پاکستان ٹیم میں ہنگامی طور پر شامل کیے جانے والے سامر افتخار برصغیر کے لیجنڈری ٹینس کھلاڑی خواجہ افتخار کے پوتے اور سابق پاکستانی ڈیوس کپر طیب افتخار کے صاحبزادے ہیں۔ سامر کے دادا خواجہ افتخار احمد خطے کے واحد کھلاڑی تھے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے ڈیوس کپ میں بھارت اور بعد میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
سامر کے والد طیب افتخار جو 1975ء میں خود بھی ڈیوس کپ کھیل چکے ہیں، نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈیوس کپ فائنل میں سامر کا کھیلنا ان کے خاندان کے لیے قابل فخر ہے۔ طیب نے بتایا، ’’سامر افتخار پاکستانی تاریخ کا واحد سکار ایتھلیٹ ہے جس نے تعلیم اور کھیل دونوں میدانوں میں کامیابیاں سمیٹیں۔ نیو میکسیکو یونیورسٹی امریکا سے گریجوایشن کی ڈگری پانے کے علاوہ وہ چار اے ٹی پی ٹورنامنٹ بھی جیت چکا ہے اور ایشیا کا سب سے فٹ کھلاڑی قرار دیا گیا۔ سامر پاکستانی یوتھ کے لیے مشعل راہ ہے۔‘‘
طیب کے بقول سامر، اعصمام الحق کی طرح خواجہ افتخار فیملی کے ورثے کا امین ہے اور ٹینس کورٹ پر ان کے خاندان کا ڈنکا آئندہ بھی بجتا رہے گا۔ طیب افتخار کے مطابق تھائی لینڈ کے کھلاڑیوں کا پاکستانی ٹیم سے زیادہ بین الاقوامی ایکسپوثر ہے مگر فائنل میں دونوں کی جیت کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔
طیب کہتے ہیں کہ گراس کورٹ آج بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی ترجیح ہے مگر اب اعصمام، عقیل اور سامر اپنی نوّے فیصد ٹینس ہارڈ کورٹ پر کھیل رہے ہیں، اس لیے تھائی لینڈ میں ہارڈ کورٹ پر کھیلنا پاکستانی ٹیم کے لیے ماضی کی طرح درد سر نہیں ہوگا۔
طیب افتخار، جو لاہور کے بڑے اسکولوں میں ٹینس کی کوچنگ بھی کرتے ہیں، نے کہا کہ ڈیوس کپ میں کامیابی پاکستان ٹینس کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوگی، ’’ ہمارے ملک میں کرکٹ کے علاوہ اورکسی کھیل کو کھیل نہیں سمجھا جاتا، اعصام الحق نے گرینڈ سلیم کا فائنل کھیل کر اس وہم کو توڑنے کی کوشش کی اور اب فائنل میں فتح سے حکومت کے کان پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔‘‘