پاکستان ہاکی: تبدیلیاں کیا رنگ لائیں گی؟
27 فروری 2012اب سولہ برس بعد بھی پاکستان ہاکی کو ایسے ہی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی پسند ناپسند کی پالیسی پر کپتان محمد عمران ، سینئر گول کیپر سلمان اکبر اورسابق کپتان وسیم احمد ٹیم میں اپنی جگہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ ٹیم میں شامل شکیل عباسی اور ریحان بٹ باغی انڈین لیگ میں شرکت کے لیے پر تول رہے ہیں۔
سابق کپتان طاہر زمان نے پاکستان ہاکی ٹیم سے سینئرکھلاڑیوں کے اخراج کو منصوبہ بندی کا فقدان قراردیا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر زمان کا کہنا تھا، ’’ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ درست نہیں ہے۔ ہمیں دو برس پہلے سینئر کھلاڑیوں کے بارے میں فیصلہ کر لینا چاہیے تھا مگر سلیکشن میں تسلسل نہیں، ہرتین ماہ بعد ٹیم میں رد وبدل کر دیا جاتا ہے۔ گز شتہ ٹورنامنٹ کے کپتان کو قومی چمپیئن شپ میں اچھا نہ کھیلنے پر باہر کرنا ناقابل فہم ہے۔ پرانے کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کی وجہ کارکردگی سے کچھ ہٹ کر ہے۔‘‘
طاہر زمان کے بقول آئے روز ٹیم میں تبدیلیوں اور کمبینیشن میں چھیڑ چھاڑ سے کھلاڑی غیر یقینی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کا اولمپکس میں ٹیم کی کارکردگی پر بھی منفی اثر ہوگا۔
پاکستان نےانیس سو چوراسی میں تیسری اور آخری بار اولمپک ٹائٹل شہرہ آفاق فاروڈ منظور جونیئر کی قیادت میں جیتا تھا۔ منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ میں نےدو برس پہلے ان کھلاڑیوں کو باہر کرنے کا مشورہ دیا تھا، جس پر کسی نے کان نہیں دھرا، اب اولمپک سر پر آ گیا ہے، تمام ٹیموں نے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے مگر بدقستمی سے ہم ابھی تک تجربات کررہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے منظور جونیئر نے پاکستان ہاکی ٹیم کے غیرملکی کوچ مشعل وین ڈین کوموجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
منظور کے مطابق سلیکشن کمیٹی ڈمی ہے اور مشعل وین ڈین ہالینڈ میں بیٹھ کر پاکستانی ٹیم کی سلیکشن کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی کوچ کو صرف بیس لاکھ ماہانہ اپنی تنخواہ سے غرض ہے انہیں ٹیم کی ہار جیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔
سابق کپتان طاہر زمان نے، جوخود بھی ماضی میں پاکستانی ٹیم کے کوچ رہ چکے ہیں، ہالینڈ سے تعلق رکھنے والےمشعل وین ڈین کی کارکردگی کو غیرتسلی بخش قرار دیا۔
طاہر زمان نے کہا کہ مشعل وین ڈین پروفیشنل کوچ ہیں مگر ایشیئن گیمز کے علاوہ دیگر ٹورنامنٹس میں ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں کے کلچر کو تاحال نہیں سمجھ سکے اور پاکستانی کھلاڑیوں کو ان کی زبان سمجھ میں نہیں آتی، جو ناکامی کی ایک بڑا وجہ ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب بھارت میں بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن ﴿ایف آئی ایچ﴾ سے غیرمنظور شدہ ہاکی لیگ، ورلڈ سیریز آف ہاکی نے بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کےعہدیداروں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
شکیل عباسی اور ریحان بٹ سمیت کئی پاکستانی کھلاڑی پرکشش معاوضوں پر اس لیگ میں حصہ لینے سرحد پار جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس حوالے سے سابق کپتان محمد ثقلین کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو انعامی رقوم نہیں ملیں۔ حب الوطنی کے ساتھ کھلاڑیوں کو زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی بھی ضرورت ہے۔ ثقلین کے بقول یہ ہاکی فیڈریشن کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کھلاڑی اولمپک چھوڑ کر بھارتی لیگ کھیلنے کے خواہشمند ہیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے حال ہی میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے ازسرنو سینٹرل کنٹریکٹ دینے کی بھی منظوری دی ہے۔ جب محمد ثقلین سے پوچھا گیا کہ اولمپک سر پر ہونے کی وجہ سے کہیں کھلاڑی ہاکی فیڈریشن کو بلیک میل تو نہیں کر رہے ہیں۔ اس پرکھلاڑیوں کی ہی وکالت کرتے محمد ثقلین نے کہا کہ نہیں یہ معاہدے کافی پہلے طے پا گئے تھے۔
اس سے قبل انیس سو چھیانوے میں ایٹلانٹا اولمپکس کے موقع پر بھی کھلاڑیوں کے مراعات کے مطالبے کی وجہ سے پاکستان ہاکی کو سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لندن اولمپکس کی تیاری کے لیے نئے چہروں کے ساتھ پاکستان ہاکی ٹیم کا تربیتی کیمپ بدھ سے نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں شروع ہوگا۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد