پاکستان میں مستحق افراد جان کی بازی لگانے پر مجبور کیوں؟
5 اپریل 2023سات سالہ سعد عمر کراچی کے ایک غریب محلے کے اُس ہجوم میں شامل تھے، جو ایک خیراتی ادارے کی جانب سے غریب لوگوں کی مدد کے لیے آٹا اور تھوڑی سی نقد رقم لینے کے لیے پہنچا تھا۔ لیکن اس دوران وہاں ایک ہنگامہ برپا ہوا اور کچھ لوگ گر پڑے۔ سعد اور دیگر 10 افراد، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، خوراک کے حصول کے لیے پیش آنے والے جان لیوا حادثات کے سلسلے میں تازہ ترین واقعے کا شکار بنے۔
یہ حادثہ ایک ایسے وقت رونما ہوا، جب پاکستان برسوں میں اپنے سب سے سنگین معاشی بحران سے نبرد آزما ہے۔ سعد کے والد عمر زادہ نے روئٹرز کو بتایا، ’’وہ ایک خوبصورت بچہ تھا۔ جب تک میں زندہ ہوں میں اس کی موت کے صدمے پرکبھی قابو نہیں پا سکوں گا۔‘‘
عمر زادہ نے کہا کہ امداد کی تقسیم کو بہتر طریقے سے منظم کیا جانا چاہیے تھا، جس میں بھوکے اور مایوس لوگوں کو امداد کی فراہمی پولیس کی نگرانی میں کی جانا چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا، ’’اس (امداد کی تقسیم) میں کوئی اصول یا ضابطے نہیں تھے کیونکہ میرے بیٹے کو روند دیا گیا۔‘‘
گزشتہ ہفتے اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں پولیس کو امدادی خوراک کے حصول کی کوشش کرنے والے ایک پرجوش ہجوم پر قابو پانے کی کوشش میں آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا تھا۔ رمضان کے مہینے میں خیرات کی تقسیم کے دوران افراتفری کے واقعات میں اب تک 16 افراد کی ہلاکت نے پاکستان کو چونکا کر کر رکھ دیا ہے۔
عالمی عوامل نے ایک ایسے موقع پر افراط زر کو بڑھاوا دیا ہے، جب قریب 230 ملین کی آبادی والے اس ملک میں حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آؤٹ معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ کمزور کرنسی، توانائی کے نرخوں میں اضافے اور رمضان میں معمول کے مطابق قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ماہ افراط زر میں ریکارڈ 35 فیصد اضافہ ہوا۔ مارچ کے مہینے میں اشیائے خوراک کی قمیتوں میں شہری اور دیہی علاقوں میں بالترتیب 47.1 فیصد اور 50.2 فیصد اضافہ ہوا۔ روئٹرز نے جن پانچ امدادی گروپوں سے بات کی ہے ان کے مطابق خیراتی اداروں کی جانب سے غریبوں کی مدد کرنے کی کوشش میں ہنگامہ آرائی نے مایوسی کو جنم دیا ہے، جس کے بدتر ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان: سیاسی یا معاشی بحران، ترجیحی حل کس کا؟
انصار برنی ٹرسٹ کے سربراہ انصار برنی کے مطابق ، ’’وہ لوگ جو تھوڑی سی رقم عطیہ کرتے تھے وہ اب مدد کے لیے پوچھ رہے ہیں جب کہ جو لوگ بڑی رقم عطیہ کرتے تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اور وہ عطیات دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سال عطیات میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ مدد کے خواہاں لوگوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
’تھکاوٹ کا شکار عطیہ دہندگان‘
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عطیہ دہندگان کے فنڈز پہلے کے مقابلے میں اب کم ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے بانی رمضان چھیپا کے مطابق، ’’عام گھرانوں کی طرح خیراتی ادارے بھی افراط زر اور مہنگائی سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ امداد کے حصول کے لیے ہماری طرف رخ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘
پاکستان کے سب سے بڑے خیراتی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ ایندھن کی زیادہ قیمتوں نے ایمبولینس سروس فراہم کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ایدھی کی ایمبولینسوں نے ہی کراچی میں بھگدڑ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے سعد سمیت دیگر افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھایا تھا۔
ایدھی نے کہا، ’’ہماری خدمات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور ہم ہمیشہ لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے، ہم پہلے ہی اپنی جمع شدہ رقم میں سے کافی خرچ کر چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ خودکشی کرنے والے مردوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ خود کشی کرنے والے ان افراد میں ان کا اپنا ایک دوست بھی شامل ہے۔
روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور خوراک کا بحران خواتین کے لیے نقصان دہ
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے غریب ترین محلوں میں مفت کچن چلاتا ہے، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ایک وقت کے کھانے کے حصول کی توقع رکھتی ہے لیکن اس سروس کو جاری رکھنے کے لیے درکار فنڈز میں کمی آ رہی ہے۔
سیلانی ٹرسٹ کے ایک رکن عارف لاکھانی نے کہا کہ ماضی میں جہاں کھانے کے مستحق 500 لوگ آتے تھے اب یہ تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ عطیات میں تقریباً نصف کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں یہ کہوں گا کہ پہلے کے مقابلے میں اب عطیات 40 فیصد رہ گئے ہیں۔‘‘
دور دراز کے دیہاتوں میں امدادی کام کرنے والی بلوچستان یوتھ ایکشن کمیٹی کے شریک بانی سکندر بزنجو کا کہنا ہے کہ یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ گزشتہ برس آنے والے سیلابوں کے بعد اب لوگ پہلے کی طرح عطیات نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عطیہ دہندگان ایک قسم کی تھکاوٹ کا شکار ہیں۔‘‘
اکثریت کی طرح سعد کے والد عمر زادہ بھی مہنگائی سے نبرد آزما ہیں لیکن انہیں اذیت ناک سوالات اور غم سے بھی لڑنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہوں۔ میرے جیسے اور لوگ بھی ہیں جن کے بچے مارے گئے، شہید ہو گئے۔ وہاں وہ عورتیں گئی تھیں، جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ کیا حکومت نہیں دیکھ سکتی کہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں؟‘‘
ش ر/ا ب ا (روئٹرز)