پاکستان ميں فرقہ وارانہ تشدد، انسانی حقوق کے ادارے بھی فکر مند
11 جنوری 2013پاکستان ہيومن رائٹس واچ کے علی ديان حسن نے کہا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان ميں شيعہ مسلمانوں کے ليے سب سے خونريز سال ثابت ہوا۔ حسن نے مزيد بتايا، ’’سال کے دوران چار سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور اگر گزشتہ روز کوئٹہ ميں ہونے والے دھماکوں کو دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ تشدد کا يہ سلسلہ مزيد بڑھ سکتا ہے۔‘‘
جمعرات کو پاکستان کے مغربی شہر کوئٹہ ميں ہونے والے بم دھماکوں ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ايک سو دس سے تجاوز کر چکی ہے۔ پہلا دھماکہ ايک مقامی اسنوکر کلب ميں ہوا جب ايک خود کش حملہ آور نے خود کو بم سے اڑاتے ہوئے ساتھ ہی بياسی افراد کو لقمہ اجل بنايا۔ اس واقعے کے قريب دس منٹ بعد ايک کار ميں دوسرا بم پھٹا جس کے نتيجے ميں نو پوليس اور بيس ريسکيو اہلکار بھی مارے گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کوئٹہ ميں شيعہ کميونٹی کے علاقے ميں ہونے والے ان دھماکوں کی ذمہ داری سنی گروہ لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔ واضح رہے کہ اس گروہ پر ملک ميں پابندی بھی عائد ہے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق لشکر جھنگوی ملک ميں سنی حکومت کا قيام چاہتی ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے ليے وہ ملک ميں شيعہ سنی فسادات کو ہوا ديتی ہے۔ يہ تنظيم مذہبی اجتماعات اور عام شہريوں کو اکثر اپنی کارروائيوں کا نشانہ بناتی ہے۔
کوئٹہ ميں ہزارہ کميونٹی کے قريب پانچ لاکھ شيعہ مسلمان آباد ہيں۔ پاکستان ہيومن رائٹس واچ کے علی ديان حسن کا کہنا ہے کہ ظاہری طور پر مختلف دکھنے کی وجہ سے ہزارہ کميونٹی کے ان شيعہ مسلمانوں کو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے اکثر ہدف بنايا جاتا ہے۔ حسن کا کہنا ہے اس کميونٹی کے افراد سب کی لاپرواہی کا شکار بنے ہيں اور سکيورٹی کے ادارے، حکومت اور عدليہ سب ہی قصور وار ہيں۔
پاکستان ميں اگرچہ گزشتہ دو سالوں ميں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ برسوں کی نسبت کچھ کم رہی مگر اس دوران فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ بڑھا ہے۔ ملک کی انسانی حقوق کے تنظيموں کا يہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت اس بات کی تحقيقات کروائے کہ آيا چند کالعدم گروہوں کے تعلقات ملکی سکيورٹی فورسز کے ساتھ ہيں۔
as/sks/Reuters